’’ارشاد ناؔمہ ، عجز و شُکر ِبارؔی/ عدالتی انقلاب ؔجاری!‘‘(1)

Apr 17, 2021

اثر چوہان

معزز قارئین ! چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن خان "Retiredہونے کے بعد بھی "Tired" نہیں ہُوئے۔ 2 مارچ 2019ء کو اِنہوں نے ’’ حسب ِ ارشاد ‘‘ کے نام سے اپنا کالم شروع کِیا لیکن، چپکے چپکے اپنی ’’خُود نوشت، سوانح عمری "Autobiography" (ترکی زبان میں ) ’’تزک ‘‘ اور ہندی میں ’’ آتم کتھا ‘‘ لکھتے رہے۔  یوں تو، نبیرۂ بابو خُداداد ، ابنِ منظورِ حسن خان مشرقی ( اب) بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور کے شہر بٹالہ ؔکے مہاجر ؔ ،پاکستانی سابق چیف جسٹس آف پاکستان ، ارشاد حسن خان پہلے ہی بہت نامور ؔ تھے لیکن، ’’ ارشاد نامہ ‘‘ نے، تو سیاسی ، صحافتی ، قانونی، سماجی ، علمی و ادبی حلقوں میں دھوم مچا دِی ہے۔ خاص طور پر قومی اخبارات میں ’’ نامہ نویس ‘‘(Columnist) خواتین و حضرات نے ،اپنے اپنے نامہؔ میں ۔ اُستاد شاعر حضرتِ نواب مرزا خان داغ دہلویؔ نے اپنے محبوب ؔ کے بارے میں کہا تھا کہ …
’’ چشم ِ مست ِ ؔیار کی ، اِک دُھوم ہے !
آج کل ہیں ، دَور ،دَورے ، جام کے !
…O…
26فروری 2021ء کو،مجھے جناب ارشاد حسن خان صاحب کا ٹیلی فون آیا ، اُنہوں نے مجھ سے میرے گھر کا پتہ پوچھا اور پھر اُن کے سیکرٹری چودھری محمد راشد مجھے ’’ برگِ سبز ، تحفۂ درویش است!‘‘ کی حیثیت سے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ مرحمت فرما گئے۔ 
’’ارشاد نامہ کا مقدمہ !‘‘
ارشاد حسن خان صاحب کے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ کا "Preface" ۔ ’’دیباچہ ، پیش لفظ یا مقدمہؔ ‘‘ لکھنے والوں میں چیف جسٹس آف پاکستان اور دوسرے نامور قانون دان صاحبان ، سابق وزیر قانون و پارلیمانی امور ، جناب ایس۔ ایم۔ ظفر  ، سابق قائم مقام صدر ِ مملکت و چیئرمین سینٹ ، جناب وسیم سجاد ، سابق قائد ِ ایوان سینٹ و سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ، بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن ، سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم خان نے وُکلائؔ کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کِیا تھا۔ اِس لحاظ سے اُنہیں مقدمہؔ لکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہوگی؟ 
قیوم نظامی صاحب سیاستدان ہیں اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر مملکت بھی رہے۔ (آج کل گوشہ نشین) حفیظ اُلرحمن قریشی سینئر صحافی ہیں اور اُردو اور پنجابی کے نامور شاعر روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن برادرِ عزیز سعید آسیؔ نے بھی وکالت کا امتحان پاس کر کے ، مسلکِ صحافت اختیار کرلیا تھا ۔ اِسی لئے یہ حضرات بھی مقدمہؔ بازی کے اسرار و رموز جانتے ہیں ۔
 اہم بات یہ کہ ’’ جنابِ ارشاد حسن خان کے بڑے بھائی اورنگ زیب خان (مرحوم ) تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) تھے ، جناب ایس۔ ایم۔ ظفر تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) ہیں ۔ بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کے والد ِ (مرحوم) چوھری احسن علیگی اور سعید آسیؔ صاحب کے والد ِ (مرحوم ) میاں محمد اکرم طورؔ بھی تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) ہیں۔ یہ حضرات بھی تو ، علاّمہ اقبالؒ ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ سے عقیدت رکھتے ہیں ۔ 
’’تقریب ِ ’’ عطائے گولڈ میڈل !‘‘ 
معزز قارئین!مجھے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری ، برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید نے بتایا تھا کہ ’’ 2001ء میں ، ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں ، تحریک پاکستان کے کارکنوں کی ’’عطائے گولڈ میڈل‘‘ تقریب کے صدر ’’تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین فرزند ِ علاّمہ اقبالؒ، ڈاکٹر جاوید اقبال ’’ تھے ، جس میں چیف جسٹس آف پاکستان ، جنابِ ارشاد حسن خان نے ، بطور مہمانِ خصوصی ، تحریک پاکستان کے کارکنوں میں ، "Gold Medals"تقسیم کئے تھے!‘‘
’’انتساب قائداعظمؒ کے نام !‘‘
’’ ارشاد نامہ ‘‘ کے آغاز میں ارشاد حسن خان لکھتے ہیں ۔ ’’انتساب ۔ قائداعظم ؒ کے نام۔ جن کی عقیدت (مجھے ) پیشہ وکالت کی طرف لے گئی! ‘‘ اور اُس کے ساتھ ہی خان صاحب نے ، مصّور ِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ  کا فارسی زبان میں یہ شعر بھی لکھا ہے کہ …
ظاہرش را پشہ آرد بچرخ!
باطنش آمد محیط ہفت چرخ!
…O…
یعنی۔ ’’ اِنسان کا ظاہر اتنا بے حیثیت ہے کہ ایک مچھر بھی اُسے چکر میں لا سکتا ہے اور دم بھر کے لئے بھی چین نصیب نہیں ہونے دیتا لیکن، اُس کے باطن میں خُدا نے ایسی صلاحیتیں رکھی ہیں کہ وہ ساتوں آسمانوں پر چھا سکتا ہے !‘‘۔ 
’’چیف جسٹس گلزار احمد صاحب !‘‘
’’ ارشاد نامہ ‘‘ کا مقدمہؔ لکھتے ہُوئے (موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان ) جسٹس گلزار احمد صاحب نے کہا کہ ’’ جناب ارشاد حسن خان ایک خُود پرداختہ اور محنتی اِنسان ہیں اور دین اسلام سے گہرا لگائو رکھتے ہیں۔ جو ، کچھ بھی اِنہوں نے زندگی میں حاصل کِیا وہ اپنے زورِ بازو سے حاصل کِیا اور وہ زورِ بازو اُن کی لائق تحسین سوچ اور اُن کے اللہ اور رسولؐ پر بے حد اعتقاد سے حاصل ہُوا۔ 
’’جناب  ایس ۔ ایم۔ ظفر!‘‘
جناب ایس ایم  ظفر نے اپنے مقدمہؔ میں لکھا کہ ’’ ارشاد نامہ‘‘ کا انتساب قائداعظمؒ کے نام ارشاد حسن خان کی اُس سوچ کی ترجمانی ہے ، جن کی عقیدت (اُن کو ) پیشہ وکالت کی طرف لے گئی!۔داستانؔ کا وہ حصہ کہ ’’ ایک یتیم اور سائیکل پر سوار بچہ کس طرح بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا۔ اُن کا بیان بڑا دل پذیر اور دلچسپ ہے!‘‘۔
’’جناب وسیم سجاد !‘‘ 
جنابِ وسیم سجاد (نشانِ امتیاز) کا مقدمہؔ یہ ہے کہ ’’ ارشاد نامہ ‘‘ ملک کی سیاسی و قانونی تاریخ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے ۔ یقین واثق ہے کہ ’’ اِسے قانون دانوں کے ساتھ ساتھ وُکلائ، جج صاحبان اور تاریخ کے طلباء بھی بڑی دلچسپی سے پڑھیں گے۔ مَیں اِس عمدہ تصنیف کی تالیف پر جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہُوں۔ اُنہوں نے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ لکھ کر تاریخ کا قرض اُتار دِیا ہے !‘‘۔
’’بیرسٹر اعتزاز احسن !‘‘ 
نامور شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف بیرسٹر اعتزاز احسن کا مقدمہؔ یہ ہے کہ ’’ تقسیم ہندو پاک سے پہلے ہی والدین کے سہارے اور شفقت سے محروم ہو جانے والا بٹالہ کا یہ نوجوان آگ و پانی کے کن دشوار تر مراحل سے گزر کر ، ہنستا مسکراتا ہُوا، پہلے اپنی تعلیم مکمل کر کے وکالت کے بحر بیکراں میں چھلانگ لگا دیتا ہے اور پھر ایک وکیل جس کا کوئی، ماما ، چاچا ، اعلیٰ افسر، جج یا پیشہ وکالت سے تعلق نہیں رکھتا تھا، ہائیکورٹ کا جج، وفاقی سیکرٹری قانون، سپریم کورٹ کا جج بن کر چیف جسٹس آف پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو جاتا ہے ۔ یہ سفر نامۂ حیات حیرت انگیز ہی نہیں ، سبق آموز بھی ہے۔
………………(جاری ہے )

مزیدخبریں