بھارتی مظالم روکنے کیلئے مسلم ممالک بالخصوص او آئی سی کو اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا

Apr 17, 2021

اداریہ

عرب امارات کی پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کم کرانے کی تصدیق اور وادی میں جاری بھارتی بربریت
متحدہ عرب امارات کے امریکہ میں سفیر یوسف العتیبہ نے واشنگٹن میں ایک تقریب کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں عرب امارات کے کردار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر کشیدگی کم کرانے اور سیز فائر کرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ان کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہو جائینگے۔ پاکستان اور بھارت اچھے دوست نہ بن سکیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ دونوں آپس میں بات چیت تو کریں۔ 
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی وجہ سے خطہ بدامنی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اور بڑا تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اس مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں نکلتا تو ایک اور جنگ ہو سکتی ہے جس کے بادل آجکل منڈلا رہے ہیں۔ یہ ایک اور جنگ یقیناً حتمی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین آخری جنگ 1971ء میں ہوئی جب بھارت کی سازشوں اور ہمارے حکمرانوں کی نااہلی سے پاکستان دولخت ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اور بھارت ایٹمی قوت نہیں بنے تھے۔ آج دونوں ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ دونوں کی طرف سے اس طاقت کے ضرورت کے تحت استعمال کی بات بھی کی جاتی ہے۔ 1971ء کے بعد بھی بھارت ماضی کی طرح پاکستان پر ایک اور جنگ مسلط کر سکتا تھا مگر اس جنگ کے روایتی سے غیرروایتی میں بدلنے کے خدشے کے باعث بھارت باز رہا۔ اسکی طرف سے کئی بار جنگ کے حالات پیدا کئے گئے۔ آج بھارت میں زمام کار مودی جیسے سرپھرے‘ متعصب اور پاکستان کے بدترین دشمن کے ہاتھ میں ہے جو پاکستان کو سبق سکھانے اور گھس کر مارنے کی دھمکیوں کے ساتھ ایسی کوشش بھیکرچکا ہے۔ پاکستان کیخلاف سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا گیا۔ پاکستان میں گھس کر مارنے کی خواہش لے کر آنیوالے دو بھارتی فضائیہ کے طیارے پاکستان نے پاک فضائوں میں تباہ کردیئے۔ 
پلوامہ حملوں کی ڈرامہ بازی کو بھارت جس طرف لے جارہا تھا اس کا حتمی نتیجہ جنگ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دو جہاز گرنے سے بھارت کو اپنی دفاعی ’’اوقات‘‘ سے آگاہی ہو گئی جس سے جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مگر کشیدگی برقرار رہی جس میں کمی کا امکان نہیں۔ اس وجہ سے بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں جارحانہ رویہ اور اسکے کشمیریوں کیخلاف بربریت اور سفاکیت پرمبنی اقدامات میں تیزی آئی۔ کشمیر پر بھارتی شب خون کو دو سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران کشمیریوں کو مسلسل بدترین پابندیوں اور کرفیو کا سامنا ہے۔ کرونا کی وباء نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اس سے بچائو کی ہر ممکن تدبیر ہر سطح اور ہر کہیں اختیار کی گئی مگر بھارت نے کشمیریوں کو کرونا سے محفوظ رکھنے اور وادی میں اس کا پھیلائو روکنے کے کوئی اقدامات نہ کئے۔ لہٰذا کو دہرے عذاب کا سامنا رہا۔ آج کشمیر میں انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کی فعال سفارتکاری کے باعث بھارت کے ظلم کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بڑے بڑے اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بھارتی سفاکیت کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس پر کشمیریوں کے انسانی حقوق بحال کرنے پر بھی زور دیا ۔ دنیا کشمیریوں پر بھارت کے مظالم کا اعتراف تو کرتی ہے مگر بات تشویش اور مذمت تک ہی محدود رہتی ہے جبکہ ایسی بربریت کو روکنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری نے اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے کشمیریوں کے تحفظ کیلئے عملیت پسندی سے کام نہ لیا تو آخری کشمیری بھی بھارت کے جبر کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔ 
پاکستان نے اپنی حد تک کشمیریوں کو بھارتی سفاک فورسز سے بچانے کیلئے آواز بلند کی تو مودی سرکار بپھر گئی۔ اسکی طرف سے ایل او سی پر شرپسندی میں اضافہ کر دیا گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آگئی۔ ان حالات میں امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ انکی طرف سے دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کی گئی جسے پاکستان نے قبول کیاجبکہ مودی نے رعونت کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ اسکے بعد ٹرمپ کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم سے لاتعلق ہو گئے۔ انسانیت کا تقاضا تھا کہ بھارت کے ظالمانہ اقدامات کو اسی طرح روکا جاتا جس طرح امریکہ نے عراق اور افغانستان میں بالترتیب صدام اور طالبان کے خلاف کارروائیاں کیں۔ 
آج بھی بھارت کی کشمیریوں پر بربریت کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ بھارت کیخلاف محاذآرائی کی جائے۔ اس کو امن کے قیام اور کشمیریوں کیخلاف کارروائیاں روکنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو کشمیریوں پر مظالم اور پاکستان بھارت کشیدگی کی وجہ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی کوشش کی گئی جو لاحاصل نہیں رہی۔ پاکستان کی طرف سے اس کا مثبت جواب دیا گیا۔ بھارت کی طرف سے بھی امارات کے عمل کی مخالفت تو نہیں کی گئی مگر بھارت کے مظالم بدستور جاری رہے۔ متحدہ عرب امارات کا عرب ممالک میں ایک مقام اور اثر ہے۔ عربوں کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں جن میں حالیہ برسوںمیں گرم جوشی بھی آئی ہے۔ وہ ان تعلقات کو بروئے کار لا کر اس پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زور ڈال سکتا ہے اور آج ایسا کرنا انسانیت کی بقا کا تقاضا بھی ہے۔ بھارت انسانیت کی راہ پر نہیں آتا تو عرب ممالک کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بحالی اور انکی آزادی کیلئے پاکستان کے شانہ بشانہ ہوجائیں۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے کسی صورت باز نہیں آرہا‘ اس کیلئے تمام مسلم ممالک بالخصوص او آئی سی کو اپنا مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔جب تک بھارت کشمیر اور بھارت کے اندر مسلمانوں کیخلاف بربریت سے باز نہیں آتا‘ مسئلہ کشمیر یواین قراردادوں کے مطابق حل نہیں کرتا‘ اس وقت تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی خطے میں امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ 

مزیدخبریں