لاہور ( تبصرہ، حافظ محمد عمران) مڈل آرڈر بلے بازوں کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ نے اچھے بھلے آسان میچ کو دلچسپ بنا دیا، جنوبی افریقہ کے باؤلرز نے بھی میچ نہ جیتنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔حفیظ، حیدر علی اور آصف علی نے ایسے وقت پر اونچے شاٹس کھیلے جب کوئی ضرورت نہیں تھی۔ فخر زمان اور بابر اعظم نے میچ آسان بنایا اور بعد میں آنے والوں نے میچ کو پوری لگن کیساتھ مشکل بنایا، چوتھا ٹی ٹونٹی میچ جیت کر پاکستان ٹیم سیریز تو جیت گئی لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میزبان ٹیم اپنے بہترین کھلاڑیوں کے بغیر کھیل رہی تھی‘ بالخصوص باؤلنگ کے شعبے میں جنوبی افریقہ کے وسائل بہت محدود تھے۔ ان کی فاسٹ باؤلنگ میں کوئی جان نہیں تھی، اسے گذشتہ اٹھائیس برس میں یہ جنوبی افریقہ کی کمزور ترین باؤلنگ لائن ہے۔ اس باؤلنگ کیخلاف بھی پاکستان کے بلے بازوں نے آسان میچ کو مشکل بنایا ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف نے کفایتی باؤلنگ کی، فہیم اشرف نے بھی اچھی گیند بازی کا مظاہرہ کیا۔ حسن علی مہنگے ضرور رہے لیکن انہوں نے وکٹیں بھی حاصل کیں۔ وینڈر ڈوسن نے اچھی بیٹنگ کی، جنے مین میلان اور وینڈر ڈوسن کے علاوہ کوئی بلے باز وکٹ پر ٹھہر نہیں سکا۔ رضوان جلد آؤٹ ہوئے اس کے بعد فخر زمان اور بابر اعظم کی شراکت داری نے میچ کو آسان بنایا‘ دسویں اوور میں بانوے رنز پر پاکستان کی دوسری وکٹ گری۔ بعد میں ترپن رنز بناتے بناتے بیسویں اوور کی آخری گیند آ گئی۔ آصف علی اور حیدر علی ایک مرتبہ پھر ناکام رہے ان کی ناکامی سے زیادہ پریشان کن مسلسل ایک ہی انداز میں آؤٹ ہونا ہے۔ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم انتظامیہ کو بہتر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ مسلسل ناکام رہنے والے کھلاڑیوں کو کب تک قومی ٹیم میں رکھ کر سکھانے کے عمل کو جاری رکھنا ہے۔ کیا قومی ٹیم تجربہ گاہ یا تربیتی ادارہ ہے؟؟