دنیا میں بے شمار شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا دل فقط جذبہ انسانیت سے لیس ہوتا ہے لیکن جب وہ جہان فانی سے رخصت ہوتے ہیں تو لوگ انہیں بعد میں بھی سنہرے الفاظ میں یاد رکھتے ہیں اسی طرح "ایک اور عہد وفا جو تمام ہوا"،سماجی کارکن اور عبدالستار ایدھی کی زوجہ بلقیس ایدھی کراچی کے نجی ہسپتال میں پرسوں انتقال کر گئیں ۔بلقیس ایدھی عارضہ قلب سمیت دیگر امراض کا شکار تھیں گزشتہ ایک ہفتے سے نجی اسپتال میں زیر علاج تھیں ۔بلقیس ایدھی، ایدھی فاونڈیشن کی چیئر پرسن تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ 16 برس کی عمر میں عبدالستار ایدھی کے نرسنگ سکول کی تربیت حاصل کی۔دو برس تک انہوں نے خدمات سرانجام دیں ۔ان کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔یتیموں ،مسکینوں کی کفالت کرنا ہو ، بے گھروں کو گھر فراہم کرنا ہو نو مولود کی ماں کی طرح پرورش کرنا ،غریبوں کے غم اور خوشی میں بلا تفریق شرکت کرنے کواپنا فرض سمجھتیں ۔ آپ کو "پاکستان کی ماں " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے آپ نے اپنی زندگی کی چھ دہائیاں غم خواروں اور دکھی انسانیت کے لیئے گزار دی، لیکن 74 سال کی عمر میں بلقیس ایدھی سب کو تنہا چھوڑ گئیں ۔فیصل ایدھی نے انتقال کی خبر دی اور کہا"امی جان اب ہم میں نہیں رہیں ،دعا کریں "بلقیس ایدھی کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی ۔بلقیس ایدھی کے انتقال پر وزیراعظم ،صدر سمیت دیگر اعلی سیاسی وسماجی شخصیات نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔غریبوں کی آخری آس بلقیس ایدھی عظیم سوچ ،مقصد اور خواہش رکھتی تھیں ۔زندگی میں ہمیشہ سادگی کی ادا کو اپنایا اپنے چھوٹے سے آنگن میں ، اپنی گود میں لاکھوں بچوں کی پرورش اور تربیت کی ۔وہ محسن انسانیت تھیں ،جس نے بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل ،دکھی مخلوق خدا کی صحیح معنوں میں بے لوث خدمت کی۔بلقیس ایدھی ،عبدالستار ایدھی ،رتھ فاواور دیگر بے شمار ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے دھرتی پاکستان کی حقیقی معنوں میں جذبہ خدمت سے سرشار ہو کر خدمت کی ۔ان تمام تر شخصیات کے برعکس اگر ہم اپنے سیاست دانوں کی عوامی خدمات ،جن کا وہ پل پل دعوہ کرتے تھکتے نہیں بلکل زیروہے ۔زندگی محض اپنے لیئے جینے کا نام نہیں بلکہ انسانوں کے غم ،دکھ،تکلیف میں شرکت کرنے اور ایک دوسرے کا احساس کرنے کا نام ہے اور یہ درس ہمیں جاتے جاتے موحومہ بلقیس ایدھی دے کر گئی ہیں ۔اس خلا کو کوئی پر نہ کر سکے گا لیکن پاکستان کی ہر ماں ،ہربیٹی،بیٹا،غریبوں ،دکھی انسانوں ،بے گھروں مسکینوں و یتیموں کا سہارا بننے کے مشن کو آگے ضرور بڑھائیں گے ۔تا کہ اگلے جہاں میں ان کی روح کو اطمینان ملے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
بلقیس ایدھی جیسی نایاب شخصیت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں ۔عبدالستار ایدھی کے بعدبلقیس ایدھی نے انسانوں کی خدمت کر کے یہ ثابت کر دکھایا کہ کسی کی زندگی میں اس کے لیئے جینے کے اسباب پیدا کرنا اس کی قبر پر فاتح پڑھنے سے کہیں بہتر ہے ۔لہذا ہم سب پر بھی لازم ہے کہ ہم سب مل کر انفرادی و اجتماعی طور پر ان کے مشن کو آگے بڑھائیں کیونکہ اللہ تعالی بھی غریبوں ،فقیروں، مسکینوں،معذوروں، لاوارثوں،یتیموں،بیواؤں کی مدد کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے۔