iایک تو بنتی نہیں ویسے ہی قبیلے سے میری

گذشتہ ہفتے تبدیلی اقتدار کے باعث اسلام آباد کا سیاسی پارہ بہت ہائی رھا تحریک عدم اعتماد کے  حق میں شامل جماعتیں جلد از جلد تمام پراسیس کو مکمل کرنا چاہتی تھیں جواب میں سابق وزیر اعظم  کا موقف فقط ایک مراسلہ تھا جس کی بنا پر وہ تمام سیاست دانوں اور ریاستی اداروں سے مراسلے کے حق میں سٹینڈ لینے کے خواہاں تھے اس کے برعکس ہماری افواج، عدلیہ اور تمام ریاستی اداروں نے نہائت تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے  ہوئے مشترکہ طور پر اس بات کا جائزہ لیا کہ اس مراسلے میں کوئی ایسی .بات تو نہی جو ریاست   کے خلاف ہو  یا ایسی زبان تو  استعمال نہیں کی گئی جس کی بنا ء پر سٹینڈ لیا جاسکے انکے مطابق یہ ایک عام مراسلہ ھے جو ایک سفیر اپنی حکومت کو ہر دور میں لکھتے رہتے ھیں  تمام ملک میں افراتفری ٹینشن اور غیر یقینی صورت حال کا 
دور دورہ تھا سارا ملک تقریباّ لاک ڈاوّن کی پوزیشن میں آچکا تھا، جب تمام نظام ریاست مفلوج اور انجماد کا شکار ہوتا نظر آرھا تھا ریاست اور اداروں
 کا ٹکراوّ یقینی یوچکا تھا عین اسی وقت پاکستان کی عدالت عظمی چھٹی والے دن تقریباّ رات 11 بجے حرکت میں آئی اور اپنے از خود نوٹس پر عملدرآمد کروانے کے لئے اپنے عملہ سمیت سپریم کورٹ پہنچ گئے اور اس طرح اقتدار کی تبدیلی کا عمل بخیر و خوبی سر انجام پایا- اسی طرح عمران خان پہلے وزیر اعظم قرار پائے جن کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت یا اقتدار  سے باہر کیا گیا،  میں افواج پاکستان کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے پارلیمانی نظام میں نیوٹرل رہنے کا اپنا دعوی سچ ثابت  کر دکھایا جس کے سبب کچھ بیرونی طاقتوں کو انتہائی مایوسی ہوئی ، الحمد للہ ہماری افواج کو یہ طرہ امتیاز حاصل ھے کہ وہ نہ صرف بیرونی محاذوں پر بلکہ اندرونی محاذوں پر بھی سازشی عناصر کا  بیک وقت مقابلہ کرکے منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں- اسی وجہ سے کچھ بیرونی عناصر نے  ایک منظم سازش کے تحت سوشل میڈیا پر عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے میں ایک مہم کا آغاز کیا قبل اسکے کہ فوج اور عوام میں کچھ دوریاں یا نفرت بڑھتی،  افواج پاکستان نے اس سازش پر سائبر کرائم ایکٹ کے ذریعے قابو پالیا  اور ان سازشی عناصر کے خلاف بھر پور کریک ڈاوّن کیا  گیا۔ سابق حکومت کو نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ عدلیہ اور ریاستی اداروں نے ملکر رخصت کیا ھے، عمران خان اور انکی کابینہ تو چلی گئی لیکن جاتے جاتے چند سوالات چھوڑ گئی جن کیجوابات اب بھی تشنہ ہیں،  آئین پاکستان کے تحت نظام عدل پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہی کرتا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے جواب میں بھی عدالت عالیہ نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے معاملات پارلیمنٹ کے اندر طے کئے جائیں اب اس فیصلے کے بعد کیا یہ مثال مستقبل کے لئے سیٹ تو نہی ہوجائے گی کہ جب پارلیمنٹیرین کا دل چاھے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیں- جانے والی حکومت ہر آنے والی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں بچھا جاتی ھے جیسے 2013ء میں پیپلز پارٹی نے 2018ء میں نون لیگ نے  اور اب 2022ء میں تحریک انصاف نے پیٹرول کی قیمت کو جان بوجھ کر انٹرنیشنل مارکیٹ ریٹ سے کم کردیا  تاکہ آنے والوں کے لئے مسائل پیدا ہوں اور وہ آتے ہی پریشان کن حالات اور عوامی مخالفت کا سامنا کریں،  موجودہ حکومت کو سب سے پہلے تو اپنے اتحادیوں کو ایڈجسٹ کرنا ھے جو کہ کافی  مشکل کام ھے دوسری بات کیا  حکومت  اتنی قلیل مدت میں ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کر پائے گی جو اس وقت مملکت پاکستان کو درپیش ہیں جبکہ آئندہ سال الیکشن کا ہوگا-

ای پیپر دی نیشن