انگریزی نظام مال کے ثمرات

دارالعدل…محمد عارف ملک
muhammadarifmalik758@gmail.com
زمینوں کے انتظام و انصرام پر انگریز سرکار نے جس قدر کام کیا اس سے پہلے نہیں ھوسکا،یہ حقیقت ھے جو ریونیو سسٹم انگریز سرکار نے برصغیر پاک و ہند کو دیا وہ زمینوں کے انتظام و انصرام کے لیے بہترین سسٹم یا نظام مال تھا جو نہ صرف کرپشن سے پاک تھا بلکہ اس کے اندر دیہی سطح پر شماریات کا بھی سسٹم تھا ۔ اس سے قبل شیر شاہ سوری نے زمین کے انتظام و انصرام تعین و پیمائش کے لیے آغاز کیا،اکبر بادشاہ نے بھی  کچھ کام کیا مگر  انگریز حکومت یا انگریز سرکار جس نے  جانفشانی اور محنت سے زمین کے لیے کام کیا اس کی مثال نہیں ملتی،مگر بعد ازاں بدنام زمانہ  پٹوار نے اس کو تباہ و برباد کر دیا اور ہماری کوتاہی و  کرپشن کی وجہ سے  آج یہ سسٹم زبو حالی کا شکار ھے ۔
گوکہ انگریز کے مال سے بدنام پٹوار تک ،یا انگریز کے مال سے آج کے کمپیوٹر تک ۔یا آج  آپ کی زمین کا رکھوالا کمپیوٹر! یا  یہ ریونیو سسٹم بدحالی کا کیوں ھوا۔اتنا بہترین سسٹم کیوں تباہ ھوا ۔ ہم بندوبست اراضیات کرانے سے گریزاں کیوں؟بے ہنگم جگہ جگہ سوسائٹیاں ہماری بربادی کا پیش خیمہ ۔ زمینوں کے کٹاؤ اور ناتوڑ سے بچنے کا  واحد حل بندوبست اراضیات ھے ۔ پٹواری کی لال کتاب سے کمپیوٹر تک ایسے بہت ایشو پر گفتگو یا  مباحثہ کیا جاسکتا ھے اور بہت  اہم مسائل لکھے جاسکتے ہیں /فی الحال ہم نے انگریز سرکار کے نظام مال کو زیر بحث لانا ھے کہ کس طرح  انگریز سرکار یا انگریز حکومت نے زمینوں کے انتظام و انصرام کے لیے کام کیا  اور پورے برصغیر کو  بہترین نظام مال دیا 
سب سے پہلے  انگریز سرکار نے اس سلسلہ میں کمیشن بنایا جو 1860 سے لے کر 1900 تک مسلسل چالیس سال کام کرتا رہا۔40 سے زاید کتابچے لکھے گئے ویسے اس سے قبل ہی کام شروع ھوگیا تھا لیکن 1860 میں محکمہ مال کا باقاعدہ انفراسٹرکچر بنانے کے لیے قانونی ورک پر آغاز ھوا۔ اور قانونی دستاویز یا کتابچے مرتب ھوئی جو محکمہ مال کی بنیاد ٹھہرے ۔اس نظام کے اندر  جانوروں اور انسانوں کی شماریات کا نہ صرف ایک جامع نظام  تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  انسانوں بلکہ  جانوروں کی  روزمرہ بیماریوں کے متعلق حکومت کو مکمل آگاہی رہتی اور صوبائی  حکومت ہر وقت باخبر رہتی اور اسے  آئیندہ معاشی پالیسی بنانے، بجٹ مختص کرنے،اور حکمت عملی طے کرنے لیے راہ مل جاتی،پٹواری  روز کی بنیاد پر ریکارڈ کو  Maintain کرتا، آگاہی سوفیصد درست ھوتی کہ کس قدر جانور ہیں بھیڑ بکری گائیں بھینس اونٹ اور دیگر جانوروں کی کل  تعداد گاؤں میں کتنی ھے 
آگے چل کر ان دستاویزات یا کتابچوں کو زیر بحث لاتا ھوں۔فی الحال عرض کرتا ھوں کہ انگریز سرکار مسلسل40 سال کی انتھک محنت سے قوانین اور قاعدے مرتب کرتے ھوئے 1900 میں پہلا بندوبست اراضیات کر ڈالا ،یہ ایک مشکل کام تھا اس کے بعد مزید کام ھوتا رھا قوانین و قاعدے مرتب ھوتے رھے ۔اور بالآخر دوسرا بڑا بندوبست اراضیات سال 1939/40 کیا گیا  جس سے اس نظام کو بہت  تقویت حاصل ھوئی، اراضی کی درست پیمائش کیلئے جریب سے  کرم کا پیمانہ ایجاد ھوا لٹھا،عکس جریب کے پیمانے وضع ھوئے ہر ٹکڑے کو قطعہ نمبر دے کرم سے درست پیمائش کرتے ھوئے موتی پرو  دیے، سال 1939/40 کا بندوبست صحیح معنوں میں ایک جامع اور موئثر نظام کے طور پر نافذ کیاگیا آج بھی ہمارے ہاں اصل اور صحیح ریکارڈ سال 1939/40 ہی ھے اسی کو سند مانا جاتا ھے اسی پر عدالتیں انحصار کرتی ہیں۔اسی کو شہادت کی بنیاد بنا کر عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں۔اسی ریکارڈ سے کاں و کروں کا تعین ھوتا ھے۔اسی سے نسل در نسل شجرہ نسب مرتب ھوا جو آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے
اب آتے ہیں ان اہم  قوانین اور کتابچوں کی طرف جو اس نظام کو کھڑا کرنے کے لیے مرتب ھوئے۔
سب سے شرط واجب العرض نامی کتاب وجود میں آئی جو محکمہ مال میں اہم دستاویز کہلائی ۔اس شرط واجب العرض نامی کتاب میں ہر گاؤں کو الگ الگ ریونیو اسٹیٹ قرار دے کر اس گاؤں کی مکمل تفصیل درج کر دی گئی،جس میں گاؤں کا نام اور نام کی وجہ تسمیہ اس کی تاریخ،گاوں کو آباد کرنے والے مالک ان کے نام ان کی عادت وخصائل،رسم و رواج ،حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے مجوزہ قوانین کا تذکرہ،گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرنے والے موچی ،ترکھان،لوہار،جولاہا،نائی دھوبی کے فرائض اور ان کی مزدوری کا تعین ۔امام مسجد کے فرائض اور حقوق کا تعین۔زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ دستکاروں کے حقوق وفرائض انہیں فصلوں کی کٹائی پر دی جانے والی شرح اجناس کی ادائیگی جس کے بدلے وہ گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔اسی شرط واجب العرض میں انگریز سرکار نے  گاؤں کے نمبردار اور چوکیدار کی  زمہ داریوں کا بھی تعین کردیا۔اسی طرح مزروعہ غیر مزروعہ ،کاشتہ یا غیر کاشتہ مفید عام رقبہ کا درست تعین اور اندراج  کردیا ۔
اسی طرح اس نظام کی تقویت کے لیے ایک اور اہم کتاب بھی مرتب ھوئی جس کو روزنامہ ہدایاتی کہا جاتا ھے پٹواری اعلی افسران کی طرف سے دی گئی ہدایات درج کرتا ھے اور اس پر عمل کرتا ھے ۔
علاوہ ازیں روزنامچہ واقعاتی بھی اہم کتاب ھے اس میں پٹواری روز کی بنیاد دیسی عیسوی اور اسلامی تاریخ درج کرتا ہے دن بھر کی کارگزاری بھی لکھتا ہے ،کس نے فرد یا خسرہ گردآوری کی آج نقل لی اور سرکاری فیس کس قدر وصول پائی آج گاؤں میں کونسا نیا واقع رونما ہوا آج کس کا عرس تھا یا کوئی گاؤں کی مشترکہ تقریب تھی،عید، بقر عید کی چھٹیاں تھیں اس لیے روزنامچہ ان دنوں میں خالی رہا اور اس پر  کچھ نہیں لکھا جاسکا آگے پٹواری روزنامچہ واقعاتی میں جانوروں کو بیماریوں کے متعلق اندراج کرتا ھے کہ آج گاؤں میں  جانوروں کو موکھل کی بیماری لاحق ھونے کا انکشاف ھوا ھے۔جس پر تحقیقات کے لیے گاؤں میں 10بکریاں اور 15گائیں کا باہمراہی مقامی زمیندار ملاحظہ کیا ھے ،جانوروں کی بیماری کے حوالے سے سوفیصد یہ بات درست پائی گئی ھے جس کو روزنامچہ واقعاتی میں اندراج کیا گیا ھے اور افسران بالا کے علم میں یہ بات لائی گئی ھے کہ گاؤں میں جانوروں کو بیماری لگ گئی ھے جس کی روک تھام کے لیے  تحرک کیا جائے اور گاؤں میں جانوروں کو  ویکسینیشن  لگانے کا بندوبست کیا جائے یعنی پٹواری اپنی دن بھرکی کارگزاری روزنامچہ واقعاتی میں اندراج کرتا ھے، پھر اس پر اپنے حلقہ گردآوری اور حلقہ تحصیل دار کے دستخط ثبت کرواتا ھے اہم اور خطرناک معاملات فوری طور پر افسران بالا کے علم میں آنے کی وجہ سے تدارک ھوجاتا ھے  آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خود کار سسٹم تھا یہ الگ بات ہے کہ اب  پٹواریوں نے ریکارڈ Maintain کرنا چھوڑ دیا ھے جب سے طمع نفسانی و ذاتی اغراض غالب آئی ھے،اور زمینوں کا بے دردی سے  کٹاؤ کر کے بے ہنگم سوسائٹیاں بنانے کا ریلہ چلا ھے،اس ریلے میں نہ صرف پٹواری بلکہ پوری انتظامی مشینری بورڈ آف ریونیو تک سب نے اس نظام کا ستیا ناس کردیا ھے سب اس کے زمیندار ہیں۔ان کی اپنی جائیدادیں بڑی بڑی کوٹھیاں بڑے بڑے محل اور بڑی بڑی سوسائٹیوں میں  ملکیت تو بن گئی ھے مگر  ایک  بہترین سسٹم جو سارے نظام کی جڑ تھی غیر موئثر ھو کر رہ گیا ھے۔
ایک اوردستاویز یا کتاب جو انگریز سرکار نے مرتب کی اسے روزنامچہ کارگزاری کہتے ہیں پٹواری دن بھر جو فرائض منصبی سر انجام دیتا ھے وہ روزنامچہ کارگزاری میں بھی درج کرتا ھے اور اس کی ایک نقل تحصیل آفس میں جمع کروا دیتا ھے ۔ کارگزاری پٹواری پر گرپ تھی اور اس سے کام کی تسلی کا ذریعہ۔
ایک اوردستاویز یا کتاب روزنامہ پڑتال ھے جس پر پٹواری کے کام کے حوالے سیآفیسر اپنے نوٹ لکھتے ہیں یہ دستاویز بھی مانیٹرنگ گرپ تھی جس پر آج کل آفیسر کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ نوٹ لکھے ۔کیونکہ ہمارے آفیسر یا بیوروکریسی وہی کام کرتے ہیں جن کو  حکومت وقت کہتی ھے۔عوام کی فلاح کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ۔
ایک اہم کتاب فیلڈ بک جو پورے نظام کی بنیاد اور جڑ ھے جو کورے چھٹے کھول کر رکھ دیتی ھے 
برطانوی دور میں جب یہ بنا اور محکمہ مال کھڑا کیا گیا تو حیرت انگیز طور زمین زمین کے چپے چپے  کی پیمائش کی گئی کروں کاں  میں ذرا بھی فرق نہ آنے دیا۔ موجودہ ہندوستان  سے شروع ھونے والی پیمائش جو بغیر کسی جدید مشینری یا جدید آلات کے پیمائش کی گئی ضلع اٹک ،جہلم ،چکوال راولپنڈی کے علاقوں میں دستاویزات اس بات کا ثبوت کا ہیں کہ کس قدر جانفشانی اور عرق ریزی سے پیمائش کی گئی کہ درمیان آنے والے ندی نالے،پکی سڑکیں ،کچی سڑکیں ،ریلوے ٹریک ریلوے اسٹیشن پل راستے جنگل پہاڑ کھائیاں جھیلیں دریا فیکٹریاں بھٹے کا اندراج درست طور پر کردیا گیا، کہیں پر کمی و بیشی اور سقم نہ رہنے دیا۔اور کرم کاں سے درست تعین ھوا۔جس قدر زمین ٹکڑے یا جس شکل میں تھے ان کو الگ سے نمبرات خسرہ، کیلہ وغیرہ الاٹ کیے ہر نمبر کے گرد چاروں اطراف پیمائش فی کرم یعنی ساڑھے پانچ فٹ فی کرم کے حساب سے درج ھوئی اس پیمائش کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لیے ہر گاؤں میں الگ الگ فیلڈ بک مرتب ھوئی مذکورہ کتاب بھی اہم تھی 
ہر موضع میں ریونیو اسٹیٹ قائم کی جن کا کل رقبہ بمہ شاملات و مفید وضع کردیا بعض اسٹیٹ بہت مشہور ھوئیں جن کا رقبہ زیادہ ھوا ان اسٹیٹ میں جیسے کالرہ اسٹیٹ بہت مشہور ھوئی۔
تو اس طرح سٹیٹ قائم ھونے کے بعد ہر نمبرات خسرہ ترتیب وار درج کے کے ہر نمبر کی چاروں اطراف سے کرم سے پیمائش کرکے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولے تحت وضع کر کے اندراج کر دیا گیا،دستاویز فیلڈ بک میں ریونیو اسٹیٹ کا کل ملکیتی رقبہ مالکان دیہہ ،سڑکوں ،تمام راستوں،مفید عام ،شاملات دیہہ ،بن روہڑ وغیرہ کو الگ الگ  نمبر خسرہ لگا کر رقبہ کا تعین کر کے تحریر کر دیا گیا،اس دستاویز کی تیاری کے بعد افسران بالا نے صحیح صحت پڑتال کیا اس کا نقشہ آج بھی ہر تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ھے۔اسی کی مدد سے ایک اور دستاویز یعنی گاؤں کا لٹھا یا نقشہ تیار ھوتا ھے جو ایک  اہم  دستاویز ھے جو کپڑے پر بمطابق موقع تیار ھے درمیان میں خسرہ نمبر اور چاروں اطراف کرم درج ھوتے  ہیں جو موقع کی پیمائش سے آسانی سے تعین ھوجاتے ہیں
جب نیا بندوبست ھوتا تو نئی فیلڈ بک تیار ھوتی ھے اب 1939/40کے بعد نئی فیلڈ بک تیار ہی نہ  ھوئی ھے کیونکہ ہم بندوبست اراضیات کرانے سے کنی کترا گئے ہیں جو کہ ہمارے لیے انتہائی ضروری ھے جس کے بنا کوئی چارہ نہیں اسی میں ہماری بقا اور سلامتی ھے ۔کے پی کے اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں پچھلی حکومت کے دور میں بندوبست اراضیات شروع ھوا ھے پتہ نہیں اب کنفرم نہیں کہ ھورہا ھے یا نہیں بہرحال یہ بھی ایک گھٹن زدہ ماحول میں ٹھنڈی ھوا کا جھونکا تھا۔
تو رقم طراز تھا کہ اسٹیٹ قائم ھونے کے بعد خسرہ نمبرات ترتیب وار درج کرتے ھوئے ہر چہار اطراف سے کرم کے حساب سے زمین کا تعین کرتے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولے کے تحت وضع کر کے اندراج کر دیا گیا فیلڈ بک میں ملکیتی نمبرات خسرہ کے علاؤہ تمام راستوں،سڑکوں ،بن، روہز ریلوے لائن جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کرکے ان کی درست پیمائش کرتے ہوئے افسران بالا کی صحیح صحت پڑتال اس کو فیلڈ بک اور ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔اس کا نقشہ آج بھی تحصیل اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے کبھی کسی کو اپنے جدی ریکارڈ میں گڑ بڑ کا شک ھو تو فیلڈ بک سارے راز افشاں کردے گی۔
جب ریونیو اسٹیٹ کاقیام عمل میں آگیا تو اسٹیٹ کے مالکان قرار پانے والوں کا پشت در پشت شجرہ نسب بھی تحریر ھوا جس سے  شجرہ نسب دستاویز وجود میں آئی جس وقت 1939/40 کا بندوبست ھوا تو مالکان کے شجرہ نسب جہاں تک معلوم ھوئے ان کو مذکورہ دستاویز کا حصہ بناتے ھوئے چار چاند لگا دئیے یہ دستاویز موئثر سمجھی جاتی ھے یہ ریونیو سسٹم کی جڑ ہے کہیں پر پٹواری گڑ بڑ کرے گا تو تحصیل آفس اور ضلعی آفس میں ریکارڈ اس کے پول کھول دے گا اور باپ دادا ،لکڑ دادا اوپر تک حسب کسب نکال باہر کرے گا یہ محکمہ مال کی سند یافتہ دستاویز ھے جہاں پر شجرہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ھے اور اس کے مطابق حصہ جات بنتے رہتے ہیں۔اسی دستاویز سے مالکان دیہہ اپنی پشتوں تک شجرہ نسب سے آگاہ رہتے ہیں۔ یہ دستاویز قانونی اور وراثتی معاملات میں اتھارٹی رکھتی ھے عدالتیں بھی اس پر انحصار کرتے ھوئے فیصلہ کا حصہ بناتی ہیں ۔ 
اسی طرح جمبندی نامی دستاویز بھی اہم ھے جس کو اب رجسٹر حقداران زمین  کہا جاتا ھے اس کو ریونیو میں ہر چہار سالہ بھی کہا جاتا ھے کیونکہ ہر چار سال کے بعد نئی جمبندی مرتب ھوتی ھے اور نئی منتقلی اور نئے خریدار شامل ھوجاتے ہیں اور فروخت شدہ رقبہ منہا کرکے خریدار مالک کا نام لکھ دیا جاتا ھے ۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ھے اور ہر چار سال کے بعد نیا ریکارڈ بنتا رہتا ھے ۔
یہ ایک اہم دستاویز ہے۔
اسی طرح خسرہ گردآوری نامی دستاویز جس میں ہر سال فصل خریف اور فصل ربیع کا اندراجات ھوتا ھے اور اس سے حکومت کوبھی پتہ چل جاتا ھے کہ اس دفعہ کون سی فصل کس مقدار میں پیدا ھوئی ھے اور آئندہ کس قدر اجناس حاصل ھوگی یا اس سے قبل پیداوار کی ریشو کیا تھی، جس سے حکومت کو آئندہ معاشی اور فنانشل پالیسی کے لییاعدادو شمار حاصل ھوتے ہیں۔اور راہ متعین کرنے میں آسانی ھوتی ھے تو ہم کہہ سکتے کہ انگریز حکومت نے  بہترین نظام  مال دیا،جو زبو حالی کا شکار ھے

ای پیپر دی نیشن