چوہدری محمد جمشید خان
cjkhan1003@gmail.com
حیاء نیک فطرت انسان کی باطنی کیفیت کی وہ قوت ہے جو انسان کو تہذیب و شرافت،پارسائی و شاستگی کے حسین وجمیل رنگوں پر مشتمل قیمتی شاہی لباس پہناتی ہے۔ذہنی فکر کو پاکیزگی کا طواف کر ا کے گُفتار کی عمدگی کی شہد کھلا کر، کردار کو آبِ زم زم کا وُضو کرا کے سماج کی سٹیج پر جس عصمت کی کرسیِ صدارت پر جلوہ فروز کراتی ہے اُس کا نام حیاء ہے۔حیاء ایمان سے جنم لیتی ہے جبکہ ایمان ایک کھیتی ہے اور حیاء اُس میں اُگنے والی فصل کا نام ہے ۔ جب حیاء انسانی نفس میں داخل ہو جاتی ہے تو وہ انسان احساسات و جذبات اور افکارو خیالات کے اظہار کی بندوشوں میں مقید ہو جاتا ہے۔ عام طورپر مرد حضرات حیاء کو صرف مستورات کے پلڑئے میں ڈال کرخود کو اس سے بری الزمہ قرار دے کر راہِ فرار اختیار کرنے کی جھُوٹی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔حقیقت میں نفسِ انسانی کے باطن کی یہ پاکیزگی مردوں اور عورتوں دونوں کی زندگی کے ہر لمحے کی ضرورت ہے تا ہم اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت کی فطرت میں حیاء کا جوہر مردوں کے مقا بلے میں بدرجہ اُتم پایا جاتا ہے۔اسی حقیقت کی روشنی میں عورت اور حیاء کو لازم و ملزوم گردانا جاتا ہے۔حضرت آدم ؑ سے لے کر ہمارے پیارے نبی جنابِ رسولِ مقبولﷺ تک سب کے سب انبیاء و رُسل شرم و حیا ء کا پیکر تھے، اس سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ حیاء مردوں میں بھی اسی طرح مطلوب ہے جس طرح عورتوں میں اس کا ہونا ضروری ہے۔آپﷺ کی ذات ِ مبارکہ خاتم النبین ہیں۔آ پﷺ کی تشریف آوری اور اعلانِ نبوت کے بعد پچھلے سار ے نبیوں کی شریعتیں منسوخ کر دی گیں لیکن عقیدہِ توحید و آخرت اور معروف اخلاقی اصول قائم رہے ،اُن اصولوں میں سب سے اہم اور قیمتی اصول حیاء ہے ۔یہ وہ اخلاقی خوبی ہے جس کی تعلیم حضرت ِ آدم ؑ سے لے کر سید المرُسلین ،امام المتقین جنابِ رسول مقبول ﷺ تک ہر نبی نے دی۔
انسانی دل ایمان اور حیا ء دونوں کا مسکن ہے۔اس گھر میں اگر بگاڑ آ جائے تو حیا ء اور ایمان دونوں خطرے کی نظر ہو جاتے ہیں ۔ان دونوں میں سے کوئی ایک اس گھر سے رُوٹھ جائے تو دوسرے کا اس گھر میںاکیلے ر ہنا اُس کی غیرت گوارہ نہیں کرتی ۔حیاء کی دولت کی حفاظت کے لیے ہمیں سر تا پا اپنے وجود کے ہر ہر عضو اور ہر ہر حصہ کی حفاظت کرنا ہوگی تب جاکر ہم دولت کے اس قیمتی خزانہ کے مالک بن سکتے ہیں۔سر کی حفاظت سے مراد ہے کہ یہ کسی طاغوتی اور باطلی قوتوں کے آگے نہ جھکے اور نہ ہی خود فرعون اور نمرود کی طرح غرور سے اکٹرے۔اسی طرح دماغ پر حیا کا پہرہ نہ ہو تو دماغ میں باطل سوچوں کا ڈیرہ جم جاتا ہے،نگاہ پر حیاء کی چوکیداری نہیں ہو گی تواس سے بے شمار اخلاقی و سماجی فتنے و فساد جنم لیں گے،کانوں کو بے ہودہ اور شرمناک آوازوں سے نہ بچایا تو ان کے راستے سے فحش اور گھٹیا پیغام دل کو جاتے ہیں اور پاکیزہ زندگی میں فساد برپاکردیتے ہیں،ناک اگر بد بُو کی عادی ہو جائے تو نفاست اور ذوقِ سلیم کی موت واقع ہو جاتی ہے، زبان اگر حیاء کا سا تھ چھوڑ دے تو اُس سے حق اور سچ کا کلمہ نہیں نکلتا یہ جھوٹ ،غیبت،چغل خوری کے شرارے چھوڑ کر فساد کی آگ لگاتی ہے۔حیاء احتیاط کے پاسبان کو ہر وقت چوکس اور چوکنا رکھتی ہے تا کہ پیٹ میں لقمہِ حرام نہ جانے پائے،ہاتھ نیکی کے کاموں کے لیے صرف استعمال ہوں اور قدم راہِ حق ہی میں اُٹھیں،شرم گاہ کی پوری حفاظت کی جائے اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی جنابِ رسولِ مقبول ﷺکی طرف سے اُس شخص کے لیے جنت کی ضمانت ہے جو اپنی زبان اور شرم گاہ کو حرام سے بچا لینے میںکامیاب و کامران ہو جاتاہے۔
حیاء کسی انفرادی تعلق رکھنے والے کا وصف نہیں ہے بلکہ اسلام تو انسانوں کی اجتماعی زندگی پر اس کا رنگ چڑھاتا ہے۔حیاء کی خوبی سے جس طرح ایک دوشیزہ کا آراستہ ہونا ضروری ہے اسی طرح یہ اقتدارکی کُرسیوں پر جلوہ فروز حکمرانوں،پارلیمنٹیرینز،معلمین،مدرسین،انتظامی،عدالتی اور عسکری اداروں،ذرائع ابلاغ سے وابستہ دانشوروں اور صحافیوں،سرکاری و غیرسرکاری اداروں سے وابسطہ چھوٹے بڑے اہل کاروں ،سیاسی و مذہبی قائدین اور کارکنان،تاجروں، صنعت کاروں ،ماہرین ِقانون اور ماہرینِ طب اور دیگر شعبوںسے وابستہ تمام افرادکے لیے ضروری اور لازمی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم سب مل کر اپنے پیارے وطن پاکستان جس کو ہمارے بزرگوں نے کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا تھااسے صیح معنوں میںایک ایسے اسلامی معاشرے میں بدل ڈالیںجس میںبے حیائی کے گندے اور غلیظ وجودکاہنگامی بنیادوں پر قلع قمع کرکے شرم و حیا ء کی خوشبو کا ایسااسلامی سپرے کریں تا کہ رہتی دنیا تک ہمارے وطنِ عزیز میں کبھی بھی دوبارہ بے حیائی کے گندے اور غلیظ جراسیموں کا گزر بھی نہ ہوسکے۔