مکالمے کی ضرورت ہے

اس بار جمعہ پڑھنے گےا تو ڈاکٹر اکرم ورک کے خطبے کا بےان 73ءکا آئےن تھا۔ فرما رہے تھے کہ ہمےںاسلامی تصورات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بنانے کے مقاصد اور نظرےے کو سمجھنے کیلئے اہل دانش کے درمےان مکالمے کی ضرورت ہے ۔ بے شک حج و عمرے کا بہت ثواب ہے ، شب قدر مےں ہزار مہےنوں سے بھی زےادہ ثواب ملتا ہے لےکن ےاد رکھےے گا کہ اگر کسی نے طاقت کے ذرےعے کسی کی زمےن و جائےداد پر ناجائز قبضہ کےا ہے ، ملکی وسائل لوٹے ہےں، اختےارت کا غلط استعمال کرتے ہوئے مراعات اور سہولتےں حاصل کی ہےں، قانون شکنی کی ہے، کسی پہ ظلم کےا ہے، کسی کا حق کھاےا ہے تو اس کی سزا ضرور ملے گی، ےعنی حقوق العباد کی معافی عبادت سے نہےں ہوسکے گی۔ پاکستان مےں آئےن کی گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے۔ ہمارے وہ لوگ جو اقتدار مےں ہےں وہ بڑے فخر سے آئےن کے پچاس سال پورے ہونے کی کہانےاں سنارہے ہےں لےکن ان کے چہروں کو غور سے دےکھےں تو اےک فقرہ منہ سے نکلتا ہے ’جھوٹھ بول دے نےں‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے ہمارے پارلےمنٹرےن تسلسل سے اس مقدس ادارے کی بالادستی کی بات کررہے ہیں، اجلاس ہورہے ہیں، کمیٹیاں بن رہی ہیں لیکن عوام کی فلاح کسی ایجنڈے پہ نہیں۔ زمین،پانی اور شجر کاری کیلئے کوئی مو¿ثر پلان نہیں بناےا جارہا۔ عوام کی سفری سہولت کیلئے کچھ نہیں کیا جارہا۔ لاہور میں میٹرو،سپےڈواورینج لائےن ٹرےن چل رہی ہے لیکن جی ٹی روڈ پہ عوام کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے حوالے کردےا گےاہے (کسی دور مےں جی ٹی روڈ پر بھی سرکاری بسےں چلا کرتی تھےں)۔ جس پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی جارہی ہے اسی پارلےمنٹ نے قانون پاس کیا تھا کہ کسی اسمبلی کے ختم ہونے کے بعد اگلے نوے دن میں الیکشن کروا دےے جائےں گے۔
بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد جنرل ضےاءبھی نوے دن مےں الےکشن کروانے کا بےانےہ لے کراقتدار پر قابض ہوئے تھے اور انھوں نے اگلے گےارہ سال پارلےمنٹ اور پرلےمنٹرےن کو ےرغمال بنائے رکھا۔محمد خان جونےجو جےسے شرےف انسان اور اعلیٰ سےاستدان کو برداشت نہ کےا اور اپنے حاصل کےے اختےار سے اسمبلےاں توڑ کے حکومت کو رخصت کردےا ۔پھر اگلے عشرے مےں کئی بار 58(2B) کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے صدور نے جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا۔ مشرف کی رخصتی کے بعد پےپلز پارٹی حکومت بنانے کے قابل ہوئی تو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 18 ترمیم کے اختیارات پارلیمنٹ کو دیدےے۔ بے شک پچھلے پچاس سال مےںآئےن کی خالق جماعت پیپلز پارٹی سیاست میں بہت آگے ہے لیکن سندھ کے عوام محرومیوں میں باقی ملک سے بہت زےادہ آگے ہیں۔ 73ءکے آئین کی بنیاد توقرآن و سنت پر رکھی گئی تھی پھریہ کیا مذاق ہے کہ عوام تو بھوکے مر رہے ہےں جبکہ حکمران توشہ خانے سے رول ریلیکس کر کے کرورڑوں کی چیزیں ہزاروں میں گھر لیے جارہے ہیں۔
ذہنوں مےں ےہ سوال تو اٹھتا ہے کہ طاقتور لوگ کےسی کےسی مراعات حاصل کےے ہوئے ہےں اور عوام کی خدمت کے نام پر کےسے کےسے رےاست کو چونا لگا رہے ہےں۔ سوال تو ےہ بھی بنتا ہے کہ کیا یہ لوگ خدا اور رسول سے ٹکر لے رہے ہےں۔حےرت ہے ہمارے قانون دانو ں نے عام لوگوں کیلئے قانون ساز اسمبلی مےں پہنچنا اتنا مشکل کردےا ہے کہ کوئی سائنسدان، شاعر، لکھاری، مصور،مدبر،سکالر اور سماج سےوک اس نظام مےں داخل نہےں ہو سکتا۔ ہمارے سےاستدان کس آئےن کی بالا دستی کی بات کرتے ہےں جس مےں سرکاری زمینےں اعلیٰ عہدےداروں مےں بانٹی جارہی ہیں، سرکاری ملازموں کی تنخواہیں ضرورت سے زیادہ بڑھائی جارہی ہیں۔ جو جاگیردار، سرمایہ دار، گدی نشےن اور وڈےرے آج سے پچاس سال پہلے اسمبلی مےں تھے انھی کی دوسری تےسری نسلےں آج بھی اےوان کی شان بڑھا رہی ہےں۔ ےہ کےسا قانون پر عمل ہے کہ امےر امےر تر ہورہا ہے جبکہ غرےب دو وقت کی روٹی کیلئے قطار مےں لگے ہوئے ہےں۔اخے جی ان محکموں بارے بات نہےں کی جاسکتی۔ اسلامی نظام ہو ےا جمہوری نظام ہر سرکاری نوکر رےاست کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ ےہ ہماری درخشاں تارےخ ہے کہ اسلامی ریاست میں خلیفہ وقت قاضی کی عدالت میں پیش ہوتا رہا ہے۔خلےفہ وقت حضرت عمرؓ خالد بن ولےدؓ جےسے دلےر اور کامےاب کمانڈر کو عہدے سے الگ کردےتے ہےں تو وہ کوئی احتجاج نہےں کرتے بلکہ امےر کے حکم کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہےں ۔ ملک کے آئین کی گولڈن جوبلی کی خوشیاں منانے والے سےاستدانوں کی اکثرےت کے پاس نہ اسلامیات ہے، نہ معاشیات، نہ سیاسیات اور نہ اخلاقیات۔ ےہ لعن طعن سے اکتاتے نہیں، شرماتے نہیں اور گھبراتے نہیں۔ انھیں ےقےنا موت ےاد نہےں، اسی لےے ےہ ملک کو پہلے سے بڑھ کے لوٹنے کی کوشش کرتے ہےں ۔ پاکستان جہاں لاکھوں کی تعداد مےں اعلیٰ تعلےم ےافتہ نوجوان بےروزگار ہےں وہاں پر کشش مراعات اور پنشن لےنے والوں کیلئے دوبارہ نوکری کے کوٹے مختص ہےں۔یہ سلسلہ کب رکے گا؟ اےک طرف حکمران غفلت کا شکار ہیں تو دوسری طرف بیوروکریٹس اور دوسرے محکموں کے لوگ سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ کامےاب سائیڈ بزنس کررہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان ووٹ اور پالیمنٹ کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنا بخوبی جان چکے ہیں۔ جب انھیں پریشانی ہو یہ پارلیمنٹ پارلےمنٹ کرنے لگتے ہےں اور جب انھیں آسانی ہوتی ہے ےہ اپنے اثاثے بنانے مےں مگن ہوجاتے ہےں۔وےسے ملک مےں حالات جےسے بھی ہوں ہمارے سےاستدان ،حکمران اور کچھ محکمے مال بنانے مےں اےک دوسرے پہ سبقت لے جاتے نظر آتے ہےں۔

ای پیپر دی نیشن