علاّمہ اقبال نے اپنے انداز میں مرنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ ....
”مرنے والوں کی جبِیں،
رَوشن ہے، اِس ظلمات میں!
جس طرح تارے چمکتے ہیں،
اندھیری رات میں!“
....O....
معزز قارئین! کل (16 اپریل کو ) پاکستان میں اور بیرون پاکستان تحریک پاکستان کے ایک ”روشن جبِیں“ نامور قائد اور ماہر تعلیمات سیّد محمد علی جعفری کے عزیز و اقارب اور عقیدت مند خواتین و حضرات اُن کی 50 ویں برسی منائی گئی۔
علاّمہ اقبال کے قریبی دوست اور قائداعظم کے ساتھی، بابا جعفری غیر منقسیم پنجاب خاص کر لاہور کی معروف سماجی سیاسی شخصیت تھے اور پنجاب میں ”بابا جعفری“ کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ بابا جعفری 25 دسمبر 1866ءمیں راجستھان (انڈیا) کی ریاست بھرت پور کے قصبہ پہر سر میں پیدا ہُوئے۔
جعفری صاحب کے بزرگان سُلطان شہاب اُلدّین محمد غوری کے دَور میں اپنے مُورثِ اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندر کے ہمراہ ہندوستان آئے اور راجستھان کے شہر ”بیانہ“ میں سکونت اختیار کی۔ غوری کے ہی دَور میں اُس کے نواح میں ہندو راجا سے جنگ کی اور اِس علاقہ کو ایک پہر میں سر کرلِیا۔ یعنی فتح کر لِیا، جس کی وجہ سے شہر کا نام ”پہرسر“ ہُوا۔ بابا جعفری کا 16 اپریل 1973ءکو لاہور میں وِصال ہُوا۔ تحریک پاکستان کے کئی مو¿رخین نے علاّمہ اقبال اور بابا جعفری کے تعلقات اور ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے بارے میں ایک دوسرے سے مشاورت کا بھی تذکرہ کِیا ہے۔
بابا جعفری ریاست ”بھرت پُور“ اور آگرہ میں بھی کئی تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے لیکن 1903ءسے 1906ءتک ”قائدین و کارکنانِ تحریک پاکستان“ کے گڑھ ”اِسلامیہ کالج (ریلوے روڈ ) لاہور“ میں بحیثیت پرنسپل اُن کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ 1906ءمیں ”امیرآف افغانستان“ حبیب اللہ خان لاہور تشریف لائے تو اُنہوں نے ”اسلامیہ کالج“ میں ”حبیبیہ ہال“ کا سنگ ِ بنیاد رکھا۔
دسمبر 1909ءمیں بابا جعفری نے ”آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس“ رنگون (برما) میں ”اسلامیانِ متحدہ پنجاب“ کی نمائندگی کی۔ تحریک پاکستان کے ایک راہنما (قائداعظم کے قریبی ساتھی) ملک برکت علی کے سوانح نگار ایم رفیق افضل لکھتے ہیں کہ ”ملک برکت علی ہمیشہ ہی بابا جعفری سے راہنمائی حاصل کِیا کرتے تھے“۔
1921ءمیں ایمپریس روڈ لاہور پر نواب محمد علی قزلباش کی قیام گاہ پر ایران کے نامور عالم دین علاّمہ عبدالکریم نجفی زنجانی سے علاّمہ اقبال اور بابا جعفری کی مشترکہ ملاقاتوں کا اُمت ِ مسلمہ میں بہت چرچا تھا۔خاکسار تحریک کے بانی علاّمہ عنایت اللہ خان المشرقی‘ ممتاز ادیب، شاعر و دانشور خواجہ دِل محمد سمیت کئی دیگر اکابرین کو اسلامیہ کالج لاہور میں بابا جعفری کے شاگرد ہونے پر فخر حاصل رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے نامور راہنما چودھری خلیق اُلزمان نے اپنی کتاب ”Pathway to Pakistan"۔ میں بابا جعفری کی قومی خدمات کا خصوصاً ذکر کِیا ہے۔1953ءمیں تحریک ِ ختم نبوت زور پکڑ گئی تو مارشل لاءکے تحت مولانا مودودی اور مولانا عبداُلستار خان نیازی کو سزائے موت دِی گئی۔ بابا جعفری نے مولانا عبداُلستار خان نیازی کی قانونی پیروی اور معاونت میں اہم کردار ادا کِیا۔ حکومت کو دونوں قائدین کی سزائے موت منسوخ کرنا پڑی۔
متحدہ پنجاب کے”ڈائریکٹر تعلقات ِ عامہ“ میر نور احمد نے اپنی تالیف ”مارشل لاءسے مارشل لاءتک“ میں لکھا ہے کہ ”سکندر جناح پیکٹ“۔ بابا جعفری ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا“۔ مولانا مودودی، پیر جماعت علی شاہ، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا ظفر علی خان، سردار سکندر حیات، خضر حیات ٹوانہ، نواب مظفر علی خان قزلباش، میاں ممتاز احمد خان دولتانہ، گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان، مولانا غلام رسول مہر، علامہ علاو¿الدین صدیقی، مولوی ابراہیم علی چشتی، مولانا چراغ حسن حسرت، آغا شورش کاشمیری اور م ش (محمد شفیع) جیسی اہم شخصیات بابا جعفری کے حلقہ ¿ احباب میں شامل تھیں۔ مو¿رخین نے لاہور میں عظیم تربیتی ادارے ”انجمن حمایت ِاسلام“ کےلئے بھی بابا جعفری کے اہم کردار کا تذکرہ کِیا ہے۔
” بابا جعفری سے ملاقات !“
بابا جعفری کے نواسے چیئرمین ”محمد علی جعفری ایجوکیشنل سوسائٹی“ سیّد محمد یوسف جعفری سے میری 1966ءمیں ملاقات ہُوئی اور پھر دوستی ہوگئی، جو آج تک قائم ہے۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ”ہمارے بزرگان سلطان شہاب اُلدّین محمد غوری کے دَور میں اپنے مُورث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندر کے ہمراہ ہندوستان آئے اور راجستھان کے شہر ”بیانہ“ میں سکونت اختیار کی تھی“ تو مَیں نے بھی اُنہیں بتایا کہ ”میرے آباﺅ اجداد صدیوں سے راجستھان کے شہر اجمیر میں آباد تھے جنہوں نے ”خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند، حضرت مُعین اُلدّین چشتی کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا! “۔ اِس پر سیّد محمد یوسف جعفری سے میری بڑھتی گئی!۔
معزز قا رئین! بابا جعفری کے وصال (16 اپریل 1973ئ) سے ڈیڑھ سال پہلے سیّد محمد یوسف جعفری مجھے اُن سے ملوانے کیلئے اپنے ساتھ گھر لے گئے تھے۔ سفید ریش اور نُورانی چہرے والے بابا جعفری نے ایک دلفریب مسکراہٹ سے میرا استقبال کِیا۔ وہ بڑے دھیمے اور مو¿ثر انداز میں مجھے اپنے بزرگوں کی داستان سُنا رہے تھے اور مَیں اپنے بزرگوں کی داستان، پھر بابا جی کی آنکھوں سے نُور جھلکنے لگا اور ایک دل نشین مسکراہٹ بھی۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ”کیا کبھی میرے بزرگوں کی بابا جعفری کے مو¿رث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندر صاحب سے کبھی ملاقات ہُوئی ہوگی؟“۔ بابا جعفری کے چاروں بیٹوں سیّد حسن جعفری، ایڈووکیٹ، میجر سیّد موسیٰ جعفری، نامور شاعر اور سفارتکار سیّد محمد جعفری اور بیورو کریٹ سیّد جعفر جعفری اور دو بیٹیوں سکینہ جعفری اور فاطمہ جعفری کی اولاد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح بہت نام پیدا کِیا۔
معزز قارئین! 9 اپریل 2019ءکو لاہور میں سیّد محمد یوسف جعفری کے چھوٹے بھائی کرنل (ر) سیّد محمد ایوب جعفری کے بیٹے سیّد محمد مصطفی جعفری کی دعوتِ ولیمہ میں بابا جعفری کی آل اولاد میں سے کئی "Serving" اور "Retired" جج صاحبان، سینئر وکلائ، ڈاکٹرز، پروفیسرز (خواتین و حضرات) سے میری بار بار ملاقات ہُوئی، مجھے تو شادی کی تقریب پر روحانی تقریب کا گمان ہو رہا تھا۔ سیّد محمد یوسف جعفری کے بہنوئی پروفیسر سیّد علیم حیدر زیدی کے دونوں بیٹوں، میجر نیئر عباس زیدی اور بریگیڈئیر احسن رضا زیدی کی موجودگی میں مَیں نے تصّور میں بابا جعفری سے مخاطب ہو کر علاّمہ اقبال کا یہ مصرعہ پڑھا کہ ....
رہبرِ ہے قافلوں کی، تاب ِ جبِیں تمہاری!
....O....