پاکستان اس وقت جن سنگین معاشی حالات کا شکار ہے ان کی وجہ سے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ملنے والی قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد ہی دیگر بین الاقوامی ادارے اور ممالک پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کی پوزیشن میں آسکیں گے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تمام شرائط پوری کر دی ہیںاب آئی ایم ایف کے پاس معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں بچا۔ لاہور میں شاہدرہ فلائی اوور منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کا ایک ٹوٹا پھوٹا معاہدہ حکومت کو جھولی میں ملا تھا جس کے لیے آج تک لکیریں کھنچوائی جا رہی ہیں، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط ماننی پڑ رہی ہیں۔وزیراعظم نے مزید کہاکہ جس دن آئی ایم ایف کی یہ بیڑیاں کٹ گئیں وہ پاکستان کے لیے خوشی کا سب سے بڑا دن ہوگا۔
دوسری جانب، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر نے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دوست ممالک سے مزید رقم کی یقین دہانی حاصل کرے۔ آئی ایم ایف کے مشن چیف کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان نویں جائزے کے تحت سٹاف لیول معاہدے کے لیے آئی ایم ایف کو تاحال مطمئن نہ کرسکا اسی لیے آئی ایم ایف نے معاہدے کو مزید مالیاتی یقین دہانیوں کے حصول سے مشروط کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات اور حکومت جو کچھ کہہ رہی ہے ان میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ صورتحال زیادہ پریشان کن اس لیے ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ملک کے معاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام اس وقت جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے۔ جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوتا تب تک دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے کیونکہ یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
آئی ایم ایف کے ایک وفد نے رواں برس فروری میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے اختتام پر سٹاف لیول معاہدے کی توقع کی جا رہی تھی تاہم آئی ایم ایف وفد یہ معاہدہ کیے بغیر واپس روانہ ہوگیا۔ آئی ایم ایف ہر مرتبہ قرض کی قسط جاری کرنے سے پہلے متعلقہ ملک کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ کرتا ہے جس میں کئی شرائط شامل ہوتی ہیں اور قرض لینے والے ممالک کو ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کے شرائط پوری کرنے کے دعوے اپنی جگہ ہیں لیکن تاحال آئی ایم ایف کی جانب سے ایسا کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا جس سے حکومت کے ان دعوو¿ں کی تصدیق ہوتی ہو۔ اندریں حالات، حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح طور پر آئی ایم ایف سے یہ پوچھے کہ معاہدے کے لیے مزید کتنی مالیاتی یقین دہانیاں ضروری ہیں کیونکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے لیے یقین دہانیاں تو کرا چکے ہیں لیکن جب تک پوری طرح واضح نہیں ہوتا کہ مزید کتنا سفر باقی ہے تب تک حکومت یہ نہیں جان سکتی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کب تک ہوسکتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام جو بہت سے مسائل کی وجہ بن رہا ہے اس سے متعلق پاک فوج بھی اپنا موقف واضح کرچکی ہے اور ہر طرف سے سیاسی قیادت سے یہی کہا جارہا ہے کہ آپس میں بیٹھ کر مشاورت سے مسائل کو حل کرنے کی سبیل پیدا کریں۔ دو روز پہلے ہونے والی 257ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی فوجی قیادت نے وہ پاکستان کے عوام کی حمایت کے ساتھ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کا عزم رکھتی ہے۔ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ فوج سیاست میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں چاہتی اور اس نے واضح طور پر سیاسی قیادت کو یہ بتا دیا ہے کہ انھیں مسائل حل کرنے کے لیے جمہوری طریقوں کو اختیار کرنا ہوگا۔ فوج کی طرف سے دیا جانے والا یہ پیغام خوش آئند بھی ہے اور لائقِ ستائش بھی۔ اس کے باوجود اگر سیاسی قیادت اکٹھی ہو کر مسائل کو حل کرنے کے لیے آپس میں مشاورت نہیں کرتی تو پھر یہ سراسر سیاسی قیادت ہی کا قصور اور نااہلی ہے۔
حکومت بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جس بیل آو¿ٹ معاہدے کے لیے کوشش کی جارہی ہے اس کے لیے امریکا سب سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کہنے کو تو ایک مالیاتی ادارہ ہے لیکن اصل میں وہ مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا کا ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے جس کی مدد سے ترقی پذیر ممالک کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ امریکا کو کسی بھی بات پر آمادہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور تمام سیاسی قیادت یک جہت ہو کر معاملات کو آگے بڑھائے۔ اس وقت پاکستان جس منجدھار میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنا اس لیے بھی اشد ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے عام پاکستانیوں کا ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد گھٹتا جارہا ہے۔ ملک چھوڑ کر جانے والے نوجوانوں کی تعداد کو دیکھ کر بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کمزور ہورہی ہے۔ سیاسی قیادت کو اس وقت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے بگڑے ہوئے معاملات کو فوری طور پر سدھارنا چاہیے۔