لیلۃ القدر اور نزول قرآن مجید

Apr 17, 2023

ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر 
رمضان المبار ک بہت ہی مقدس اور برکت والا مہینہ ہے اس مہینہ کے فضائل لاتعداد اور اس کی برکات بے شمار ہیں۔ اس ماہ کے روزے عابد اور معبود کے درمیان ایک راز ہے جس کا اجروثواب بھی اللہ براہ راست بندے کو عطا کرے گااور اس کو جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازہ جس کا نام باب الریان ہے اس دروازے میں سے گزارے گا۔اسی با برکت مہینے میں قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا۔یہ اللہ تعالیٰ کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے جو اس نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐکو عطافرمایا تھا۔نزول قرآن مجید باقاعدہ ایک علم ہے جس پر علماء نے بہت کچھ لکھا ہے۔اس سلسلہ میں دو اصطلاحات ہیں پہلی اصطلاح ہے ’’نزول ‘‘ اور دوسری اصلاح ہے ’’تنزیل‘‘دونوں اصطلاحات اور ان کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔نزول کا مطلب بلندی سے نیچے اترنا ہے۔اور تنزیل کا مطلب ہے بتدریج کسی شے کو اوپر سے نیچے اتارنا۔
نزول قرآن مجیدکے لئے یہ دونوں کلمات استعمال ہوئے ہیں۔قرآن کریم کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اسے بتدریج خاتم المرسلین رسالت ماٰب ؐکے قلب مبارک پر بذریعہ جبریل امین اتارا تاکہ آپ لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔سورہ بقرہ کی آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی روشن دلیلیں ہیںاور حق کو ناحق سے پہچاننے کی۔‘‘
قران مجید کے نزول کے مراحل
نزول کے پہلے مرحلے میں قرآن مجید فرقان حمید مکمل طور پر لوح محفوظ میں لکھا گیا۔ یہ مرحلہ کتنے عرصہ میں مکمل ہوا اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ یہ سب غیبی امور ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے پاس رکھے ہیں ۔سورہ البروج کی آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے ’’بلکہ وہ قرآن مجید ہے اور لوح محفوظ میں ہے‘‘۔اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ میں ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل کیا گیا۔جبکہ جبریل امین اسے لوح محفوظ سے نہیں لیتے تھے ،اللہ تعالی سے اخذ کرتے اور سنتے تھے۔اس نزول میں جبریل امین اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔لوح محفوظ ایسی مخلوق ہے جہاں کسی کی رسائی ہی نہیں اورجو ساتویں آسمان میں ہے۔
 نزول ثانی وہ مرحلہ ہے جس میں پورے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے ’’آسمان دنیا‘‘میں موجودبیت العزت میں منتقل کیا گیا۔علماء نے لکھا ہے کہ یہ  واقعہ لیلۃ القدر میں ہوا۔
نزول ثالث کے تحت اس نزول کیلئے قرآن مجید میں لفظ تنزیل استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا۔ جبکہ انزال کے معنی ایک ہی دفعہ نازل کر دینا ہے ۔
نزول قرآن مجیدکے اس مرحلے کا آغاز صحیح روایات کے مطابق رمضان المبارک میں اس وقت ہوا جب رسالت ماٰب ؐکی عمر مبارک چالیس برس تھی اورجس رات اس نزول کا آغاز ہوا وہ  لیلۃ القدر تھی۔ قدر کے معنی بزرگی،منزلت اوربڑائی کے ہیں ،لہٰذا یہ مرتبہ والی رات ہے۔ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک مخصوص رات جو انتہائی عزت ومنزلت والی ہے۔اس رات میں چونکہ اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام قرآن مجید نازل ہوا اس لئے شرف و منزلت کے اعتبارسے اس کو لیلۃ القدر کہا جا تا ہے۔ اس رات سے اگلی صبح صادق تک خیر وبرکت اورامن وسلامتی کی بارش ہوتی رہتی ہے ۔سیدنا انس بن مالک ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہؐ  نے فرمایا’’جو آدمی اس رات کی فضیلت حاصل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس (لیلۃ القدر ) کی سعادت سے بدنصیب ہی محروم ہوتا ہے۔‘‘
سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ  نے فرمایا شب قدر کو یہ دعا پڑھواللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی کہ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ،معافی کو پسند کرتا ہے،پس مجھے معاف کردے۔آج شب قدر ہے ۔ضروری ہے کہ اس رات کے ایک ایک لمحہ سے فائدہ اٹھا یا جائے ۔اپنی گذشتہ زندگی کا جائزہ لیا جائے،گناہوں پر نادم ہو جائے ،اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کیا جائے اور آئندہ زندگی اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق بسر کی جائے۔

مزیدخبریں