سید وجیہ السیما عرفانی ؒ
عبادت کا اصل مقصد، اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص رکھنا ہے ، اس کا ثمرہ قرب حق ہے ، رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں وحدہ لا شریک خالق ِ کائنات اور اس کی مخلوق کے درمیان وہ انداز قرب قائم ہوا کہ جس سے وحی حق عبارت ہے ، اسی لئے ارشاد ہوا ،
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن( البقرہ ۔ ۱۸۵)
رمضان کے مہینے کی عظمت کو اس طرح سمجھو کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن حکیم نازل کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید جس میں ، ھُدًی لِّلنَّاس کی دعوت ،اس کی رہنمائی اور اس کا آوازہ خیر کسی ایک قوم ، کسی ایک وقت ، کسی ایک علاقے یا کسی ایک دور کے لئے مخصوص یا محدود نہیں ہے ،بلکہ جمیع کائنات کے لئے ہمیشہ تک ، ہر دور کے لئے ، ہر علاقے کے لئے ، ہر فرد کے لئے ھُدًی لِّلنَّاس ہے۔ یہ قرآن حکیم وہ ہے کہ پوری کائنات کی رہنمائی فرماتا ہے اور اسے منزل مقصود تک لے جاتا ہے ،وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی ، اسکی رہنمائی ، اس کی دستگیری اور اس کی مشکل کشائی کے کرشمے جابجا ، حرف بہ حرف کھلے کھلے ہیں ، قرآن حکیم صرف قلب و ضمیر ہی کو حق آشنا نہیں کرتا ، بلکہ شعور و آگہی کو بھی منزل دوست تک لے جاتا ہے ، یہ تمہیں صرف باطن ہی کی اصلاح کے طریقے نہیں بتاتا ، بلکہ ہر ایک کے ظاہر کو بھی آراستہ اور شائستہ بناتا ہے ، یہ کتاب حق وہ ہے کہ اس سے اہل کائنات صرف اپنے معبود ہی کے سامنے سرخرو نہیں ہوتے ، بلکہ اہل جہان کے سامنے بھی بانعمت ثابت ہوئے ہیں اور اس وحی الٰہی کے وسیلے سے صرف روز قیامت کی خیر اور اگلے جہاں ہی کی نعمتوں اور جنتوں کا نہیں بلکہ اس موجودہ زندگی کی ہر خیرو نعمت کا بھی سامان میسر آتا ہے ،
وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ( آل عمران ۔ ۱۳۶) اجر عمل کرنے والوں کا کیا ہی خوب ہے ۔
پھر یہ کہ قرآن حکیم بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی تو ہے ہی الفرقان بھی ہے ، یعنی یہ کلام الہٰی حق و باطل ، سچ اور جھوٹ ، درست اور غلط ، مقبول اور نامقبول کے درمیان تفریق کا کام کر تا ہے تو اس عظمت ،اتنی برکت اور اتنی بڑی اہمیت کا حامل ہے جس مدت یا جس مہینے میں نازل ہوا ہے ، اسے کس قدر خیرو برکت عطا ہوئی ہو گی ،فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ۔ کوئی شخص اس مبارک مہینے میں موجود ہو ، وہ لازماً اس مہینے میں روزے رکھے ، ہمیں اس حکمت الہٰی کو دیکھنا ہے کہ روزے اس مہینے میں فرض فرمائے ، جس میں قرآن حکیم نازل ہوا ، اس مہینے کے روزے فرض کرنے سے پہلے قرآن حکیم کی جو صفات یہاں پیش کیں وہ یہ ہیں ۔یہ ساری کائنات کا رہنما ہے۔ اس میں منزل مقصود تک پہنچنے کے واضح طریقے موجود ہیں ۔یہ غلط اور صحیح میں تفریق کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں روزے کا عمل ہمیں باطن، قلب و ذہن ، ضمیر ، احساس ، اور وجدان کی اس پاکیزگی کے ساتھ منزل پر لے کے آگے بڑھتا ہے جس کا منتہا قرب حق اور جس کی جزا ذات ِ حق ہے ۔
جس طرح ہم نماز پڑھتے ہوئے کسی بھی شخص کو دیکھ لیتے ہیں ، زکوٰۃ کی رقم دیتے ہوئے ، حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ، اس طرح روزے کا ظاہر عمل کوئی نہیں ہے ، روزہ سراسر باطن ہے اور اس کی برکات بھی پورے انسانی مزاج میں ہیں ، اسی حقیقت کو اس حدیث قدسی میں واضح فرمایا کہ ، الصوم لی ، روزہ تو خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے ۔
نزول قرآن اور وحی والے اس مہینے کے روزے دو عشرے گزرنے کے بعد جب تیسرا اور آخری عشرہ آتا ہے تو اس کی طاق راتوں میں ایک رات ایسی بھی آتی ہے کہ وحی الہٰی نے اسے ہمیشہ کے لئے
خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ( القدر ، ۳) فرمایا ہے ، کہ وہ ایک رات ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے ۔ نزول وحی کے اعتبار سے یہی رات وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد پورے مہینے کی برکتوں کا دائرہ کھینچتا ہے ، یعنی اس پورے مہینے کی اپنی برکت نزول قرآن کی وجہ سے ہے ، اور نزول قرآن اس مہینے کی ایک رات میں نازل ہوا ، اسی نعمتوں کو یوں ارشاد فرمایا ، اِِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبٰرَکَۃ ( الدخان ، ۳)ہم نے اور ہمی نے اس قرآن مجید کو ایک رات میں نازل فرمایا ہے یہ رات بڑی برکت والی ہے اور ،
اِِنَّآ اَنزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر ( القدر ، ۱) ہمی نے اس قرآن مجید کو قدر والی رات میں نازل فرمایا ہے ، اس اعتبار سے پوری لیلۃ القدر کو ساری نعمتوں اور برکتوں کا مرقع قرار دیا گیا ہے۔ واضح ہوا کہ اس کی ساری برکت ، نعمت ، خیر اور عطا اس انداز عمل میں ہے ،جو خود حق تعالیٰ نے بندے کے لئے معین فرمایا ہے ، اور وہ ہے عبادت ہو ، اللہ تعالیٰ کے لئے با اخلاص ، اور اس کے طریقے کے مطابق ہو جو ہمیں شریعت نے بتایا ہے ، شریعت دین اور طریق مقبول کونسا ہے ؟ وہ جو ہمیں سید کون و مکاںؐ نے سمجھایا ، اپنے مبارک عمل سے ، یا ارشادات سے ۔
حضورؐ کی ذات سے ہمارے دل کی حقیقی محبت اور ساری کائنات سے کہیں بڑھ کر حضور ؐ ہی کو محبوب رکھنا ، یہ ہمارے ایمان کا محور ہے ، تاہم دل و ضمیر کے اس ابدی معاملے کے علاوہ ظاہر میں بھی یہی ہے ، اللہ جل شانہ نے ہمیں نماز کا حکم فرمایا ہے ، نماز شے کیا ہے ؟ اس کا طریق اس کا انداز ، اس کا اسلوب سب کچھ حضورؐ کا عمل ہے ، حضور ؐ ہی نے ارشاد فرمایا ،صلو کما رایتمونی اصلی، تم نمازیں اس طرح پڑھا کر وجیسے مجھے نمازیں پڑھتے دیکھا کرتے ہو ، روزے کی شرائط اور طریقے ، حج کے مناسک اور دوسرے سبھی احکام الہٰی کی صورت ٹھیک وہی ہے جو حضور آلہ وسلم نے ہمیں کر کے دکھائی یا جس کے لئے ہدایات عطا فرمائیں ، تو لیلۃ القدر کی یہ برکت و نعمت کہ ، تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلاَمٌ ، یہی شب برکات ہے کہ اس میں فرشتے نازل ہوتے ہیں ، روح القدس کا پھیرا ہوتا ہے اللہ جل شانہ کے حکم سے اور ہر معاملے کے ساتھ سلام ، وہ حرف مقبول کہ اہل جنت کے لئے بھی ہے سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ( الرعد ۔ ۲۴) اور اس کائنات میں بھی اہل حق کے لئے آوازہ حق ہے ۔سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ( یسٰین ۔ ۵۸)
اسی برکت و سلام کے حصول کے لئے حضور سید کونین ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس رات کو رمضان کی آخری دس میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو ، یعنی اہل ایمان کے لئے لازم ہے کہ اس شب کو نعمت و برکت کے لئے کاوش و کوشش کریں ۔اللہ جل شانہ اپنے فضل و احسان سے ہمیں رمضان کی برکتوں سے مالا مال فرمائے ، ہمارے روزوں کوقبول فرمائے اور لیلۃالقدر کی نعمتوں سے نوازے جانے کا شرف بخشتا رہے اور تمام تر درود وسلام اس ذات خاتم النبینؐ پرجن کے صدقے جمیع کائنات کے نصیب میں یہ رحمتیںآئیں۔