آئین کے تحفظ کا ڈھونگ اور زمینی حقائق

Apr 17, 2024

اصغر علی شاد

امر اجالا
اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
سنجیدہ حلقوں کے مطابق محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، شیر افضل مروت اور عمر ایوب خان کا ریاست/اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ان کی سیاسی موقع پرستی اور ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خواہش کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر یہ لوگ سیاست میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مرکزی حکومت کی اتھارٹی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ یہ مسترد شدہ گروہ اپنی سیاسی جگہ بنانا چاہتے ہیں، چاہے اس کی قیمت قومی استحکام کو تباہ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔
مبصرین کے مطابق یہ مسترد شدہ جماعتوں کے قائدین بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کا بہانہ بنا کر اپنے منفی سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری تناو¿ اچکزئی اور دیگر اسٹیبلشمنٹ مخالف افراد کو طاقت کے سٹرکچر میں موجود تقسیم بڑھانے کا ایک اور موقع فراہم کررہا ہے۔ یہ عناصر اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ طور پر غلط سمجھی جانے والی مداخلت کے خلاف خود کو عدالتی آزادی کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہوئے صف بندی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملک کی غیر مستحکم سیاسی اور معاشی صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پشین سے اپنے احتجاج کا آغاز کرنے والی اپوزیشن لانچنگ پیڈ کے طور پر بلوچستان کو استعمال کرنا چاہتی ہے جو پہلے ہی بلوچ قوم پرستوں کی قیادت میں پاکستان مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور بلوچستان کو پاکستان کا سب سے پسماندہ خطہ قرار دے کر اپوزیشن جماعتیں سیاسی مقاصد کے لیے عوام کے جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔یاد رہے کہ مذکورہ سیاست دانوں کی منفی ایجنڈے پر مبنی سیاست متوازن رائے سازوں کی نظروں میں واضح طور پر بے نقاب ہو چکی ہے اور وہ یہ اپنے منفی طرز سیاست سے مزید بے نقاب ہوں گے۔
 یہ امر اب ایک کھلا راز بن چکا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی مدد حاصل کرنے کے لیے ہر غیر ملکی امبیسی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور اس بابت تحریک انصاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان کو ایک ناکام ملک کے طور پر پیش کر نے کی مکروہ سازش میں مصروف نظر آتی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بہت سے غیر ملکی سفارت خانوں کو پاکستان کا ایسا عکس پیش کرنے کے پیچھے نیت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت پر دباو¿ ڈالا جا سکے۔
    علاوہ ازیں تحریک انصاف یہ بیانیہ بھی پیش کر رہی ہے کہ اگر اس کی قیادت کسی طرح بھی نااہل ہو گئی تو گویا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔مبصرین کے مطابق عمرانی میڈیا اپنا بیانیہ ہر امبیسی کے حساب سے تبدیل بھی کرتا رہتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس اپنے تمام تر الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں اس کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر اکثر بیرون ملک حکومتوں سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ 
اسی پس منظر میں غیر جانبدار ذرائع نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ 9مئی کے سیاہ ترین واقعات کے ٹھوس شواہد سامنے آنے کے باوجودپی ٹی آئی تا حال اسی سعی میں مصروف نظر آتی ہے کہ بھارتی اور کچھ اپنے ا مریکی ہم نواو¿ں کے ساتھ ملکر یہ بیانیہ ترتیب دے سکے کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں۔نسبتاً کچھ اعتدال پسند حلقوں کے مطابق اپنے غیر ملکی آقاو¿ں کی مدد سے پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بیچنے میں کامیاب بھی نظر آتی ہے جس پر بجا طور پر تشویش ظاہر کیا جانا ضرورت وقت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔
 اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہیں کہ شخصی آزادی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کے لئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔
    اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہیں اور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ وہ ریاست کے اعلیٰ آئینی عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ 
اس تناظر میں مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کا ہم نوا گروہ ان دنوں آئین کے تحفظ کے نام پر ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے اور اس مقصد کی خاطر نئے نئے ہتھکنڈے اپنا رہا ہے۔پہلے حقیقی آزادی کا کھوکھلا نعرہ لگایا گیا اور اب آئین کے تحفظ جیسے خوبصورت الفاظ کی آڑ میں ملک کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ قوم متحد ہو کر ان ملک دشمن عناصر کی اس منفی روش کو ناکام بنائے گی۔انشااللہ

مزیدخبریں