پس آئینہ
خالدہ نازش
اگر آپ کو اخبار پڑھنے کا شوق ہے تو اس کا ادارتی صفحہ ضرور پڑھا کریں،،یہ بات میرے سکول کی اردو کی ٹیچر نے اس وقت کہی تھی جب میں نویں جماعت میں تھی ،تب نہ اخبار پڑھنے کا شوق تھا اور نہ ہی ادارتی صفحے کا پتا تھا -لیکن یہ بات لاشعور میں اٹک ضرور گئی تھی -بچپن میں صرف اخبار کے کاغذ سے بنائے ہوئے جہاز پر پرواز کرتے الفاظ یا پانی پر تیرتی ،کاغذ سے بنائی ہوئی کشتی پر سوار الفاظ کو پڑھنے کی حد تک اخبار سے دوستی تھی -میرے محلے کے صرف ایک گھر میں اخبار آتا تھا ،جس کے آنے کے دو تین دن بعد اس گھر کے بچے اخبار کے ورق پھاڑ کر جہاز اور کشتیاں بناتے اور ہم مل کر کھیلتے تھے -میں ان جہازوں اور کشتیوں پر لکھی بےربط عبارت کو ضرور پڑھا کرتی تھی ،بےربط اس لئے کہ کاغذ کو پھاڑ لینے سے ادھا فقرہ کشتی یا جہاز پر ہوتا تھا اور ادھا پیچھے رہ جانے والے ورق پر -اس طرح وہ ادھورے فقرے جن میں الفاظ ایک دوسرے سے ناراض معلوم ہوتے تھے بچپن کی محدود سمجھ سے باہر ہوتے تھے ،اور پھر ان الفاظ کا روکھا پن ایسے لگتا تھا کالی سیاہی سے اخبار کا منہ کالا کر دیا گیا ہے -اگر رنگین تصویروں کے ساتھ الفاظ بھی رنگین ہوتے تو شاید پڑھنے میں دلچسپی بڑھتی جاتی -اخبار کا یہ روکھا پن آج تک برقرار ہے -آج بھی اخبار کے لئے بہت ہلکا کاغذ اور کالی سیاہی ہی استعمال کی جاتی ہے ،رنگین تصویریں اور رنگین صفحات بہت کم ہوتے ہیں -اگر اخبار مالکان اس روایت کو توڑ کر اچھا کاغذ اور اخبار کی تحریر کو بلیک کی بجائے کسی اور رنگ اور رنگین تصویروں کے ساتھ پرنٹ کرنے لگیں تو پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے ،کیونکہ جو چیز دیکھنے میں اچھی لگتی ہے وہی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے خیر! یہ میری ناقص رائے ہے -اصل بات کی طرف آتے ہیں -وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مجھے اخبار پڑھنے کا شوق پیدا ہونے لگا تو سب سے پہلے اپنی ٹیچر کی کہی ہوئی بات پر عمل کرتے ہوئے ادارتی صفحے کو ہی پڑھنا چاہا ۔ مختلف کالم نگاروں کے کالم بہت متاثر کرتے رہے اور مجھے لگا کہ سب سے زیادہ باخبر لوگ کالم نگار ہی ہوتے ہیں ،جن کی ملکی اور غیر ملکی حالات ،سیاست اور سیاست دانوں اوراردگرد کے ماحول پر گہری نظر ہوتی ہے -جن کی سوچ موضوعات کی تلاش میں پرواز کرتی رہتی ہے -ایک کالم نگار کا کالم زیادہ تر حقیقت پر مبنی اس کا ایک مشاہداتی تجزیہ ہوتا ہے -ایک کالم نگار ایک شاعر ،ایک ناول نگار ،افسانہ نگار اور ایک کہانی رائٹر بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سب اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و جذبات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے کے فن سے واقف ہوتے ہیں -ان کے اندر علم و فہم کی بنیاد پر آگہی کا لاوا پکتا رہتا ہے جو الفاظ کی صورت میں پھٹتا ہے ،اور پھر یہ ان میں سے کسی بھی میڈیم کو اپنا کر الفاظ کے قالب میں ڈھالنا شروع کر دیتے ہیں -آگہی کے اس سفر کی کوئی منزل ہوتی ہے اور نہ ہی اسے منزل کی تلاش ہوتی ہے ،ایک تشنگی ہوتی ہے جسے بجھانے کے لئے ہر رائٹر کا ذہن موضوعات کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے -تمام رائٹرز کی طرح اپنے قلم کے ذریعے معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کرنا اور اچھائیوں کی ترویج کرنا ایک کالم نگار کی بھی زمہ داری ہوتی ہے -سب سے اہم بات کوئی بھی رائٹر خواہ وہ کسی بھی میڈیم سے تعلق رکھتا ہو شوقیہ رائٹر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں زیادہ تر اس کا اپنا کمال ہوتا ہے بلکہ یہ ایک خدا داد صلاحیت ہوتی ہے جسے محنت سے بہتر کیا جا سکتا ہے مگر خود سے اپنے اندر پیدا نہیں کیا جا سکتا -ایک رائٹر کے اندر اس کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے جس کا منظر پر آنا باقی ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ کی طرف سے آمد ہوتی ہے جس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی موضوع کی تلاش میں یا کسی موضوع پر لکھنے کے لئے کئی دن بھی لگ جاتے ہیں اور کبھی کبھی کی? موضوع اپنی مکمل تکمیل لیے ذہن کے افق پر ابھرتے ہیں -یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے-میں بحیثیت شاعرہ اس مشاہدے سے گزر چکی ہوں -میں شاعری کے ساتھ ساتھ اب کالم نگاری کو بھی اپنی قلم کا حصہ بنانا چاہتی ہوں-کالم نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں بہت وسعت ہے اور جس میں کسی بھی موضوع پر کھل کر بات ہو سکتی ہے -اور ایک رائٹر کا اصل مدّعا اپنی بات کو کھل کر لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے -کسی بھی فیلڈ میں آنے والے نئے لوگوں کو اگرچہ اپنی جگہ بنانے میں وقت لگتا ہے ،مگر شوق اور لگن کی بنیاد پر جلد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں - میرے لئے یہ ایک نیا تجربہ ہے جس میں دیکھنا ہے کہ میں اپنی اس صلاحیت سے کس حد تک انصاف کر سکوں گی -اس کا ثبوت پڑھنے والے دیں گے -میں کسی مخصوص موضوع پر نہیں لکھنا چاہتی جس طرح زیادہ تر کالم سیاست اور حالات حاضرہ پر لکھے جاتے ہیں، جبکہ میرے کالم کا حصہ مختلف موضوعات ہوں گے -یہ ایک لمبا سفر ہے جس کا آغاز میں اس دعا کے ساتھ کر رہی ہوں کہ میرے اس کام میں تسلسل اور ثابت قدمی رہے ،کیونکہ میں نے بہت سے نئے لکھنے والوں کو دیکھا ہے جو بڑے ولولے کے ساتھ لکھنا شروع کرتے ہیں چار دن لکھتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں -ایک کامیاب کالم نگار کے پاس کبھی موضوع ختم نہیں ہوتے اور پڑھنے والوں کو اس کے ہر بار ایک نئے موضوع کے ساتھ آنے والے کالم کا انتظار رہتا ہے ،یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے -آج کے لیے اتنا ہی یہ ایک ابتدائی کالم ہے اور آپ سب سے تعلق جوڑنے کا ذریعہ بھی -اس امید کے ساتھ کہ یہ تعلق ہمیشہ جڑا رہے گا اور آپ سب میری حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے -