زورا زوری اور کرپشن کلچر میں لتھڑے ہمارے سسٹم میں حکومتی‘ عدالتی‘ انتظامی اقدامات کے باوجود اب تک اصلاح احوال کی کوئی گنجائش نکلتی نظر نہیں آرہی اس لئے میں ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کا علم ہونے کے باوجود ان پر قلم اٹھانے سے بالعموم گریز کرتا ہوں کہ بھینس کے آگے بین بجانا دیوار سے ٹکریں مارنے کے ہی مترادف ہے۔ کرپشن کلچر میں اصلاح کی گنجائش اس لئے نہیں نکل پاتی کہ جو مناصب اس کیلئے تادیبی اقدامات اٹھانے کے مجاز و متقاضی ہیں‘ وہ خود اس کلچر میں گردن گردن دھنسے ہوئے ہیں۔ بات نکلتی ہے تو ان عالیجاﺅں‘ ناخداﺅں کی جبینِ نیاز بھی شکن آلود ہوجاتی ہے چنانچہ مجھے ایسے معاملات میں معروف پنجابی شاعر عبیرابوزری کا یہ شعر ضرور کچوکے لگاتا ہے کہ:
پ±لس نوں آکھاں رشوت خور تے فَیدا کِیہہ
پِچھّوں کردا پِھراں ٹکور تے فَیدا کِیہہ
مگر سچی بات ہے کہ آج ملت ایکسپریس کے ذریعے کراچی سے اپنے گھر جڑانوالہ آنیوالی نوعمر خاتون مریم کی ریلوے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہولناک پٹائی اور پھر ٹرین سے نیچے گرنے کے باعث اسکی ہلاکت کے بارے میں سوشل اور پرنٹ میڈیا پر چلنے والی خبروں اور وقوعہ کی ویڈیو دیکھ کر چالیس سال قبل مسافر ٹرین میں میرے اور میری فیملی کے ساتھ پیش آنیوالے پرتشدد واقعہ کی فلم بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی اور میں عبیرابوزری کے شعر کو نظرانداز کرکے اس واقعہ کی تفصیلات بھی آپکے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ یہ 1984ءکے اوائل کا واقعہ ہے۔ مجھے نوائے وقت جوائن کئے تین سال ہو گئے تھے اور اپنی فیملی کی غمی خوشی میں شرکت کیلئے اہلیہ اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اکثر ٹرین کے ذریعے لاہور سے پاکپتن آیا کرتا تھا۔ ٹرین سے ہی واپسی ہوا کرتی تھی۔ خاندانی روایت کے مطابق میرے اور میری اہلیہ کے بھائی ہمیں الوداع کرنے کیلئے ہمارے ساتھ آتے اور ہمیں ٹرین میں بٹھانے کے بعد واپس جاتے۔ وقوعہ والی علی الصبح بھی میرا اور میری اہلیہ کا ایک ایک بھائی ہمارے ساتھ آیا۔ اس وقت میرے بڑے بیٹے شاہد کی عمر اڑھائی سال کے قریب تھی جبکہ اس سے چھوٹا بیٹا شعیب صرف ایک سال کا تھا۔ ہمارے بھائیوں نے سامان اٹھا کر ہمیں ٹرین کی ایک بوگی میں سوار کرایا اور نشستوں پر بٹھانے کیلئے خود بھی ٹرین کے اندر آگئے۔ مسافروں کی دھکم پیل میں بمشکل تمام ہمیں نشستیں مل پائیں۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ ریلوے پولیس کا ایک اہلکار ایک خاتون کو اپنے ساتھ لئے ہماری نشستوں کے پاس آیا اور ہمیں حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ جائیں۔ یہاں اس خاتون نے بیٹھنا ہے۔ میں نے ملائمت کے ساتھ اس اہلکار کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی مگر اسکی رعونت اور وردی کا رعب داب اسے ٹکنے نہیں دے رہا تھا۔ اس نے گالی دیتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا اور اٹھانے کی کوشش کی جس پر میرے بھائیوں نے مزاحمت کی تو وہ باقاعدہ ہاتھا پائی پر اتر آیا اور مجھے بھی کھونسے جڑ دیئے۔ اسی دوران اسکے ساتھی دو اور پولیس اہلکار بھی آگئے اور ہمیں عملاً دھکے دیکر ٹرین سے نیچے اتار دیا اور پاکپتن ریلوے سٹیشن سے ملحقہ ریلوے پولیس کی چوکی میں لے آئے جہاں چوکی کے انچارج سمیت پولیس اہلکاروں نے ہمیں مزید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس وقت موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے کہ کراچی والی خاتون کے ساتھ پیش آنیوالے واقعہ کی طرح ہمارے ساتھ پیش آنیوالے واقعہ کی بھی ویڈیو بن جاتی مگر ایسے واقعات میں دوسرے مسافروں کا بے حسی اور بے نیازی والا طرز عمل آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔ تین روز قبل کے واقعہ میں کسی صاحب نے خاتون کی پٹائی اور اسے گھسیٹے جانے کی ویڈیو تو بنالی مگر ٹرین کے سارے مسافر خاموش تماشائی بن کر اس کربناک منظر کو بس دیکھتے ہی رہے۔ بعینہ ہمارے ساتھ ٹرین میں پیش آنیوالے واقعہ پر بھی دوسرے مسافر خاموش تماشائی ہی بنے رہے۔ لوگ یہ طرز عمل اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اتھری پولیس کے ساتھ کسی اور کے معاملے میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں کہ پرائی مصیبت اپنے گلے کیوں ڈالی جائے۔ بہرحال پولیس چوکی میں اچھی خاصی دھنائی کے بعد ہمیں بمشکل تمام خلاصی ملی اور ہم اگلی ٹرین کے ذریعے پاکپتن سے لاہور واپس آگئے۔ پولیس تشدد سے میرا منہ سوجا ہوا تھا۔ اسکے باوجود میں نے آفس آکر اس واقعہ کے بارے میں کسی سے ذکر تک نہ کیا تاہم جب میں اپنی ”بیٹ“ کی کوریج کیلئے لاہور ہائیکورٹ آیا تو روزنامہ امروز کے سینئر کورٹ رپورٹر تاج الدین حقیقت نے میرا چہرہ دیکھ کر مجھ سے استفسار شروع کردیا چنانچہ میں نے انہیں وقوعہ کی تمام تفصیلات بتا دیں۔ وہ جلال میں آگئے اور اس وقوعہ کی ساری تفصیلات کی خبر بنا کر فائل کر دی جو اگلے روز امروز میں صفحہ اول پر باکس آئیٹم کے طور پر شائع ہوئی۔ وہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے عروج کا دور تھا۔ خبر شائع ہوئی تو خود جنرل ضیاءالحق نے اس کا نوٹس لے لیا اور اس وقت کے وزیر ریلوے کو وقوعہ کی جامع انکوائری کرانے کا حکم دیا چنانچہ وزیر ریلوے نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے پاکپتن کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا۔ جب انکوائری کا آغاز ہوا تو ریلوے پولیس کے متعلقہ اہلکاروں نے قانونی شکنجے سے بچنے کیلئے ایک فرضی داستان گھڑی اور جس خاتون کی وجہ سے ٹرین کی بوگی میں فساد ہوا تھا‘ اس کا جھوٹا بیان حلفی لکھوا کر انکوائری کمیشن میں پیش کر دیا جس میں اس خاتون کی جانب سے مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی اس لئے یہ وقوعہ پیش آیا ہے۔ اس وقت پاکپتن بار کے عہدیداران اور دوسرے وکلاءکے علاوہ پاکپتن کے لوگوں کا ایک ہجوم میرے ساتھ ہمدردی اور حمایت میں کمرہ عدالت میں موجود تھا اور کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس بیان حلفی کو سن کر ہجوم بپھرتا نظر آیا تو مجسٹریٹ نے کارروائی اگلے روز پر موخر کر دی مگر پولیس کی جانب سے پیش ہونیوالے پراسیکیوٹر کی خوب دھنائی کی کہ آپ کو ایسے الزام لگواتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ کیا کوئی آدمی اپنی بیوی‘ بچوں اور بھائیوں کی موجودگی میں بھری ٹرین میں کسی خاتون کے ساتھ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ اگلے روز انکوائری کا آغاز ہوا تو پولیس اہلکاروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں کیونکہ ان پر سیدھا سیدھا قاتلانہ حملے کا کیس بنتا نظر آرہا تھا چنانچہ سماعت ختم ہوتے ہی پولیس اہلکاروں نے معافی تلافی کیلئے شہر کے معززین اور انتظامیہ کے لوگوں کے ذریعے مجھ پر دباﺅ ڈلوانا شروع کر دیا۔ میں نے اس صورتحال سے محترم مجید نظامی کو فون کرکے آگاہ کیا جنہوں نے ہمارے رپورٹنگ سیکشن کے سینئر کولیگ طارق اسماعیل صاحب کو ادارے کی جانب سے میرے ساتھ کھڑا ہونے کیلئے پاکپتن بھجوا دیا۔ انکے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے ساتھ گہرے تعلقات تھے جنہوں نے دباﺅ ڈالنے والی تمام شخصیات اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کو میرے گھر بلوالیا جہاں پولیس اہلکاروں نے عملاً گڑگڑا کر معافی مانگنا شروع کر دی۔ چنانچہ طارق اسماعیل صاحب نے مجھے اور میرے والد صاحب کو ملزمان کو اس بنیاد پر معاف کرنے پر قائل کرلیا کہ پورے شہرے کو اس معافی کا علم ہو چکا ہے جو اخلاقی طور پر ہماری فتح ہے۔ میں خود بھی کیس کی طوالت میں نہیں الجھنا چاہتا تھا اس لئے انکوائری کمیشن کے روبرو انہیں معاف کرنے کا بیان قلمبند کرادیا۔
اس واقعہ کے تقریباً دس سال بعد ایک ادھیڑ عمر شخص میرے پاس نوائے وقت کے آفس میں آیا جس کے سر کے بال الجھے ہوئے اور شیو بڑھی ہوئی تھی۔ کہنے لگا کہ آپ نے پہچانا مجھے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو اس نے بغیر کسی شرمندگی کا تاثر دیئے اپنا تعارف کرایا کہ میں وہی پولیس ایس ایچ او ہوں جس نے آپ کو پاکپتن ریلوے پولیس چوکی میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس وقت میری کیفیت عملاً سر پیٹنے والی تھی مگر میں نے ضبط سے کام لیا اور استفسار کیا کہ وہ کس مقصد کیلئے میرے پاس آیا ہے۔ اس نے پھر بغیر کسی خجالت کا مظاہرہ کیئے مجھے کہا کہ میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور میرا بیٹا بے روزگار ہے۔ آپ اسے کہیں روزگار دلوار دیں۔ اس کیلئے اس نے ایک محکمے کا نام بھی بتایا۔ میرا دل تو چاہا کہ اسکی آنکھوں پر بھی نیل ڈال کر اسے واپس بھجواﺅں مگر میں نے خود پر جبر کرکے متعلقہ محکمے میں اسکے بیٹے کیلئے سفارش کر دی۔ بعد میں اس شخص نے میرے ساتھ کبھی رابطہ نہیں کیا۔ یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہی بتانا ہے کہ ادارہ جاتی بالخصوص پولیس کے محکمہ میں زورا زوری اور کرپشن کلچر اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ کسی پولیس اہلکار کو‘ چاہے وہ جس بھی منصب پر فائز ہو‘ اپنے کئے پر شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ٹرین میں تین روز قبل بھی خاتون کو چھیڑچھاڑ سے منع کرنے پر جس پولیس اہلکار نے سخت تشدد کرکے اور مبینہ طور پر اسے چلتی ٹرین سے نیچے گرا کر قتل کیا‘ وہ بھی اب کسی شرمندگی کے اظہار اور اعتراف جرم کے بجائے اس مرنے والی خاتون پر ہی مسافروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا پوری ڈھٹائی سے الزام لگا رہا ہے اور پوارا محکمہ اسکے دفاع میں اسکے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسی پولیس گردی کے اور بھی بے شمار واقعات کا میں عینی شاہد ہوں مگر وہی بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔ جب آئی جی پولیس عوام پر مغلظات بکنے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے والے اپنے محکمہ کے ایک کانسٹیبل کو اپنے پاس بلوا کر پروٹوکول اور شاباشی تھپکیاں دینگے اور اسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرائیں گے تو بگڑے سسٹم میں اصلاح احوال کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ تو جناب!
اپنے اپنے سر بچالو دوستو
ناریل ہیں بندروں کے ہاتھ میں۔