بدھ‘ 8 شوال 1445ھ ‘ 17 اپریل 2024ئ

بھٹو آج بھی قبر سے حکومتیں گراتے اور بناتے ہیں۔ بلاول۔
جیالوں نے تو اس بات پر تالیاں بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ لاڑکانہ کی جلسہ گاہ جئے بھٹو اور کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے کے نعروں سے گونجتی رہی۔ مگر پاکستان کے عوام کی اکثریت البتہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔ جبھی تو اس ملک کا یہ حال ہے کہ 45 سال قبل دنیا سے چلا جانے والا آج بھی اس کے مسائل حل ہونے نہیں دے رہا۔ جس طرح ان کی اپنی حکومت کا تختہ الٹا گیا وہ اب 45 سالوں سے یہی کام قبر میں بیٹھ کے کر رہا ہے کسی کو آرام سے حکومت کرنے اور کام کرنے نہیں د ے رہا اور یوں ملک میں کل بھی ہاری بھوکا تھا آج بھی ہاری بھوکا ہے، کل بھی غریب روتا تھا آج بھی غریب روتا ہے۔ کل بھی بچے ننگے تھے آج بھی بچے ننگے ہیں بلکہ سچ کہیں ننگے دھڑنگے ہیں۔ اگر بھٹو کے ساتھ یہ زیادتی نہ کی گئی ہوتی تو آج کم از کم وہ آرام سے قبر میں چین سے ہوتے اور ملک میں بھی چین سے دوسروں کو حکومت کرنے دیتے۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ نہ ہوتی۔ بہرحال اس عرصہ میں جب آصف زرداری کی حکومت رہی، بے نظیر بھٹو کی حکومت رہی تو تب کوئی آرام سے کیوں نہ رہا۔ یہ بات سب کے لیے سوچنے والی ہے۔ کیا اس وقت بھی بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کی حکومتوں کو آرام سے کوئی کام کرنے نہیں دیا۔سندھ تو ان کا اپنا صوبہ ہے کم ازکم اس پر ہی ترس کھاتے۔وہاں صرف بھٹو زندہ ہے یا پی پی والے۔ عوام تو زندہ درگور ہیں۔ حکومت بنانے اور گرانے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔ وہ چسے چاہے بادشاہ بناتا ہے جسے چاہے راندہ¿ درگاہ کر دیتا ہے۔ بہت پہلے برطانیہ کے دور حکومت میں ایک انگریزی وائسرائے نے کہا تھا کہ ہندوستان میں دو لوگ حکومت کرتے ہیں ایک ہمارا تاج برطانیہ اور دوسرا اجمیر میں پڑا خواجہ معین الدین، ان دونوں کی یہاں حکومت چلتی ہے۔ اب پتہ چلا کہ پاکستان میں بھٹو مرحوم حکومت سازی کا کام قبر میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کو یہ نئی خبر بزبان بلاول مبارک ہو۔
٭٭٭٭٭
بلوچستان میں شیر افضل مروت کا چیک پوسٹوں سے بچ کر گاڑی بھگانے کا کارنامہ۔
 پی ٹی آئی والے نجانے کیوں خود کو قومی جماعت کی سطح سے نیچے گرا کر ایک لسانی، صوبائی یا تخریب کاری کی حامی جماعت بنانے پر تل گئے ہیں۔ الٹی سیدھی حرکتیں کر کے خود کو بہت بڑا انقلابی اور تیس مار خان بنانے پر خوشی محسوس کرتے ہیں جو کام کر کے منظور پشتین والے لوگ خود کو بڑا پھنے خان تصور کرتے ہیں وہی کام اب پی ٹی آئی کے عہدیدار کر کے نجانے لوگوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ کیا اب پی ٹی آئی کا لیول یہ رہ گیا ہے کہ عام ناکوں پر یافوجی چیک پوسٹوں پر چند منچلوں کو ساتھ لے کر دھونس جما کر خود کو قانون سے مبرا ثابت کرے۔ یہ کوئی لسانی، گروہی سیاست کرنے والوں کا ٹولہ نہیں ایک قومی سطح کی جماعت ہے مگر جس طرح گزشتہ دنوں بلوچستان میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے رہنما شیرافضل مروت کے ساتھ مل کر زبردستی چیک پوسٹوں سے اپنی گاڑیاں بھگائیں اور چمن شہر کی طرف زبردستی بنا کسی تلاشی کے لے گئے وہ افسوس ناک ہے۔ اگر کوئی واردات ہو جاتی اس حماقت کی وجہ سے کوئی تخریب کار اپنی کارروائی ڈال دیتا تو کیا ہوتا؟۔ حساس سرحدی علاقوں میں ایسا کرنا کیا درست ہوتا ہے۔ ان راستوں سے ناکوں سے چیک پوسٹوں سے گزر نے والے باقی پرامن پاکستانی بزدل ہیں کہ یہ ٹولہ اپنی بہادری دکھانے پر اتر آیا۔ ایسی حرکتیں کالعدم تنظیمیں کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی عقل ماری گئی ہے۔ یہ پی ٹی آئی والوں کو کیا ہوا۔ خیبر پی کے میں بھی وہ یہی حرکتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ اب بلوچستان کے سرحدی علاقے میں بھی ایسا کر کے وہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو قوم پرست تنظیموں کا نعرہ ہے کہ ڈیونڈر لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔اس پر یہاں وہاں ہم ایک ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر شیرافضل مروت اور ان جیسے لوگوں کو افغانستان چلے جانا چاہیے جہاں طالبان حکومت انہیں بہت اچھی طرح ایسی حرکتوں پر افغانستان اور پاکستان کا فرق سمجھا دے گی۔ یوں ان کا سارا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ وہاں جا کر ذرا کوئی ایسے طالبان کی چیک پوسٹ کو روندنے کی کوشش تو کرے۔ بعد میں ڈھونڈنے سے بھی اس کا نام و نشان نہیں ملے گا۔
٭٭٭٭٭
روٹی کی قیمت میں کمی پر پنجاب حکومت اور نانبائیوں میں ٹھن گئی۔
اک ذرا حکومت پنجاب کی طرف سے روٹی اور نان کی قیمت میں کمی کا معمولی سا اہتمام کیا گیا۔ لگتا ہے پنجاب بھر کے تندور والوں اور نانبائی ایوسی ایشنوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ سبسڈی سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ، رعایتی امدادی آٹا چور بازاری کرکے خریدتے ہیں اور روٹی اور نان بھی مقررہ وزن کے مطابق فروخت نہیں کرتے۔ یوں ہر طرف سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ اس سے تو لاکھ بہتر ہے کہ ایک بار پھر پنجاب بھر میں سستی سرکاری روٹی فراہم کی جائے تاکہ اس نانبائی مافیا سے جان چھوٹے اور پہلے کی طرح نان اور روٹی پیک شدہ دستیاب ہو وہ بھی سرکاری نرخوں پر۔ یوں کم قیمت کا فائدہ عوام کو ہو گا اور بند پڑے روٹی پلانٹ پھر سے فعال ہو جائیں گے۔ اس طرح اس لٹیرے مافیا کے بھی ہوش ٹھکانے آئیں گے۔ اس کے بعد پھر جس کا جی چاہے تندور پر جا کر 20 روپے کی روٹی خریدے اور 25 روپے کا نان۔ عام آدمی سرکاری روٹی پلانٹ والی 5 روٹیوں یا 5 نانوں کا پیکٹ سرکاری نرخوں پر خرید کر کھا سکتا ہے۔ اب یہ مسلم لیگ کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کے لیے ایک چیلنج ہے۔ دیکھنا ہے وہ کس طرح اس مشکل مرحلے سے نکلتی ہیں اور عوام کو ملنے والی رعایت کو بچانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ عوام کو ان سے بہت توقعات ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مریم نواز انہیں مہنگائی کے اس عذاب سے نکالیں اور گراں فروش مافیاز سے نجات دلائیں۔ اس وقت سرکاری کنٹرول ریٹس پر عمل درآمد بہت ضروری ہے جو یہ مافیاز ہونے نہیں دیتے۔ مگر حکومت کا مزہ بھی تب ہے جب وہ اپنے احکامات پر عملدرآمد بھی کرائے اور اڑیل گھوڑے کو لگام ڈالے۔
٭٭٭٭٭
ایران پر اسرائیلی جوابی کارروائی کسی بھی وقت متوقع ، امریکہ و یورپی برادری پریشان۔ 
اب یہ بات تو طے ہے کہ اسرائیل والے ایران کے خلاف جوابی اقدامات ضرور کریں گے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ وہ جوابی حملہ کب کرتے ہیں اور وہ کتنا زور دار ہوتا ہے۔ اس وقت عالمی برادری کی کوشش ہے کہ اسرائیل تحمل سے کام لے اور صبر کرے۔ مگر سب جانتے ہیں کہ ایسا کرنا اسرائیل کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ عالمی میڈیا پر ابھی سے اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ اسرائیل حملے میں ہاتھ ہلکا ہی رکھے گا جس طرح ایران نے رکھا یا بھرپور جوابی کارروائی کرے گا۔ امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ کچھ کرنے سے پہلے اسے ضرور آگاہ کرے تاکہ اسے علم ہو کیا ہونے والا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے ایران نے حملے سے قبل امریکہ کو آگاہ کر دیا تھا۔ امید ہے اسرائیل بھی حد کراس نہیں کرے گا۔ ورنہ جو ہو گا اس کا ادراک امریکہ کو بھی ہے اور عالمی برادری کو بھی۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یورپ اور امریکہ نے ابھی سے اسرائیل کے تحفظ کے عزم کو ایک بار پھر دہرایا ہے۔ وہ سب یک زبان ہو کر اسرائیل کو بچانے کی بات کر رہے ہیں۔ کاش ایسی ہی یکجہتی ہمارے اسلامی ممالک نے بھی غزہ پر حملے کی صورت میں دکھائی ہوتی تو آج غزہ کا یہ حال نہ ہوتا۔ مگر وہی 
جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر 
کے مصداق سب ڈھیلے ڈھالے احتجاج زبانی بیانات تک ہی محدود رہے اور اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اب پورا یورپ اور امریکہ مل کر اسرائیل کی ایسی تیسی ہونے سے اسے بچانے کی کوشش کر رہاہے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ
”توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری“ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...