حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : با جماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے ۔ (بخاری)
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کی با جماعت نماز اس کے گھر اور بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ہے اور یہ اس لیے کہ اس نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کی طرف چلا اورصرف نماز پڑھنے ہی کی نیت سے چلا تو وہ ایک قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک غلطی مٹا دی جاتی ہے ۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے اور جب تک اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے ملائکہ اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ کوئی اور بات نہ کرے ۔ یا اللہ اس پر رحم فرما اور نماز میں ہی رہتا ہے جب تک وہ نماز کا انتظار کرتا ہے ۔
عمر و ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ میں نابینا ہو ںمیرا گھر فاصلے پر ہے اور مجھے کوئی پکڑ کر لانے والا بھی نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں مجھے اجازت ہے کہ میں گھر نماز ادا کر لوں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تجھے اذان سنائی دیتی ہے ؟ عرض کی جی ہاں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتا ۔ (ابو داﺅد ) امام بہیقی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا میں تیرے لیے ایسی رخصت نہیں پاتا کہ جماعت میں حاضری کے بغیر تم باجماعت نماز کی فضیلت حاصل کر لو ۔
ابو داﺅد میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک شخص کا ایک شخص کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اور اس کا دو کے ساتھ نماز ادا کرنا ایک کے ساتھ ادا کرنے سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اور جتنی کثرت ہو اسی قدر اللہ تعالی کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے ۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو چالیس دن با جماعت نماز ادا کرے اس طرح کہ تکبیر اولی پا لے تو اس کے لیے دو خلاصیاںہیں ۔ ایک خلاصی آگ سے اور دوسری نفاق سے ( ترمذی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے عشاءکی نماز با جماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا اور جس نے نماز فجر با جماعت پڑھی تو گویا اس نے پوری رات کا قیام کیا ۔( مسلم شریف)
رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب نماز کھڑی ہو جائے تو بھاگتے ہوئے نہ آﺅ بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آﺅ ۔ جو مل جائے پڑھ لو اور جو کچھ رہ جائے اسے پورا کر لو ۔ (بخاری و مسلم شریف )