لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب کے وزیر خوراک نے گندم کی خریداری کے حوالے سے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ گندم کی امدادی قیمت انتالیس سو روپے ہے جو پنجاب میں دیگر صوبوںکی نسبت سب سے زیادہ ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے سابق حکومت کی ’’انصاف آفٹر نون سکولز‘‘ پالیسی کے حوالے سے 20لاکھ گھوسٹ بچوں کے اندراج کا انکشاف کیا ہے، اور کہا ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت اپنی تعلیمی پالیسی کا اعلان آئندہ ماہ کرے گی۔ ایوان میں وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم کی عدم موجودگی پر حکومتی اور اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ سپیکر کی رولنگ جاری اور ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے 15 منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر چوہدری ظہیر اقبال چنڑ کی صدارت میں شروع ہوا۔ سیکرٹری اسمبلی نے چار پینل آف چئیرپرسن کے ناموں عبد اللہ وڑائچ، رانا منور حسین، سید علی حیدر گیلانی، غلام رضا کا اعلان کیا۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں مستونگ سمیت حالیہ دہشت گردی واقعات میں پاک فوج کے شہداء کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرائی گئی۔ زیرو آورز پر اپوزیشن رکن وقاص مان نے کہا کہ صوبہ کی مویشی منڈیاں ٹھیکیدار پرالی، چارہ، تندی، چارپائی، کھرلی اور باڑہ کے نام پر زبردستی بھتہ سے مویشی منڈی سردرد بن چکی ہے۔ ٹاسک فورس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے، مویشی منڈیوں میں ٹھیکیدار صرف انٹری فیس اور پارکنگ فیس وصول کرسکتے ہیں مگر پارکنگ فیس بھی اضافی وصول کررہے ہیں۔ کچھ دیر بعد وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے ایوان میں تاخیر سے آنے پر معذرت کی، اور تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی وفد سے ملاقات کی وجہ سے تاخیر ہوئی اب میں اور ایڈیشنل سیکرٹری بھی حاضر ہیں، آئندہ اجلاس میں مہیا کرنے کی یقین دھانی کرا دی۔ وزیر تعلیم نے ایوان کو بتایا کہ ہماری حکومت آئندہ ماہ تعلیمی پالیسی جاری کر دے گی اس پر کام جاری ہے، اور اس کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں تین ماہ میں دوپہر کی شفٹ میں بہتری لا رہے ہیں، صبح کے ٹیچرز کو دوپہر میں پڑھانے کیلئے تنخواہ دیدی جاتی ہے۔ انصاف آفٹر نون سکول پالیسی پر وزیر تعلیم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن والے جو یہ جو تالیاں بجا رہے ہیں انہی کے وزیر تعلیم مراد راس نے آفٹر نون پالیسی دی تھی، اس وقت وزیر اعلی عثمان بزدار اور بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے۔ اپوزیشن ارکان نشستوں پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ وزیر تعلیم نے انکشاف کیا کہ انصاف آفٹر نون سکولوں میں سوا کروڑ سے بیس لاکھ بچے جعلی بچے نکلے، اب رواں سال ایس این ای سے سکولوں کو شروع کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تعلیم ایمرجنسی دنیا بھر میں ہی ہے، اس ستمبر میں ہر سکول میں اساتذہ کو ہم پورا کرکے دیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں حکومت نے دی پراونشل اسمبلی آف دی پنجاب لاز ترمیمی بل 2024ء کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ اس بل کی منظوری کے بعد پنجاب اسمبلی میں سیکرٹری جنرل کا تقرر کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل کی طرز پر اب پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری کا عہدہ بھی سیکرٹری جنرل کہلائے گا۔ موجودہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی عامر حبیب کو پنجاب اسمبلی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا گریڈ بائیس حاصل ہوگا۔ سیکرٹری جنرل پنجاب اسمبلی کے عہدے کی ترمیم کی منظوری دی۔ قومی اسمبلی میں بھی سیکرٹری جنرل کا عہدہ نافذالعمل ہے۔ پنجاب اسمبلی پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر لیگی رکن اسمبلی موتیا بیگم کی مفاد عامہ سے متعلق قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، اور اس میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم و دیگر عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم کا بندوبست کیا جائے، اور بابا فرید یونیورسٹی میں فارغ التحصیل طلباو طالبات کیلئے روزگار کا حصول آسان ہو۔ ضلع منڈی بہاء الدین میں دانش سکول کی تعمیر سے متعلق قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں فوڈ پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خوراک پنجاب بلال یاسین نے کہا ہے کہ باردانہ کی تقسیم شروع نہیں ہوئی ہے تو پٹواری کیسے تقسیم کررہے ہیں، گندم کی امدادی قیمت انتالیس سو روپے ہے جو پنجاب میں سب سے زیادہ ہے، پنجاب سب سے بڑی فوڈ باسکٹ ہے، سندھ کو پنجاب سے بیس فیصد گندم دیتے ہیں تو وہ اپنی مرضی سے امدادی قیمت کچھ بھی رکھ سکتے ہیں، پنجاب میں سب سے زیادہ گندم اگائی جاتی ہے تو سپورٹ پرائس انتالیس سو ہی رکھ سکتے ہیں وگرنہ مسائل پیدا ہوجائیں گے، اب حکومت نے ڈھائی سو ارب روپے گردشی قرضہ واپس کئے، گردشی قرضے کیلئے بھی سود پر پیسہ لینا پڑتا ہے، ایک باردانہ ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے تو پڑھے لکھے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، شوگر ملوں میں پیسوں پر کہوں گا کہ کین کمشنر کو ہدایت دوں گا شوگر مل نے کسی کے پیسے دینے ہیں تو دلوائیں گے۔ قبل ازیں اپوزیشن کی جانب سے رانا آفتاب احمد نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کاش بلال یاسین زمیندار ہوتے تو ان کا درد سمجھتے، بھارت سے زیادہ بہتر زرعی آلات اور زمین تھی لیکن کچھ لینڈ مافیا نے گرین لینڈ کو براؤن لینڈ بنا دیا ہے، زمیندار کو حکومت نے کوئی ریلیف نہیں دیا پنجاب حکومت ہر صورت گندم خریدے، نگران حکومت نے گندم کیوں برآمد کی، سولہ روپے کی روٹی کا نعرہ لگایا یہ سولہ والی روٹی تو کوئی اپنے جانوروں کو بھی نہیں ڈالتا، شوگر کین مافیا کی طرح گندم مافیا بھی بن جائے گا۔ زمینداروں کو خوشحال کریں، ڈیزل کی قیمت ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے، معاشرے میں خیرات سے نہیں انصاف سے بہتری آئے گی۔ رکن اسمبلی تیمور لالی نے کہا کہ مڈل مین کو نکال کر زمیندار سے براہ راست گندم خریدنی ہوگی، لیکن گندم کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے کہا کہ زرعی صوبہ ہے تو گراؤنڈ پر کچھ اور عمل درآمد کچھ ہوتا نہیں ہے، اگر گندم سنٹر پر پٹواری بیٹھے گا اور اپنے رشتہ داروں کو باردانہ دے گا، آڑھتی تو ستر فیصد گندم کل وہیں دیدے گا، ڈیزل سے زراعت متاثر ہوتی ہے، آٹھ روپے مزید ڈیزل پر بڑھا دیئے ہیں جس سے کسان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، چیلنج کرتا ہوں پنجاب میں اٹھائیس سو روپے سے بتیس سو روپے تک گندم فروخت کی جا رہی ہے، گندم کی امدادی قیمت کا بہترین وقت نومبر اکتوبر ہوتا ہے سپورٹ پرائس کا بھی نگران حکومت میں اعلان نہ کیا گیا، یاد رکھیں اکتوبر نومبر میں گندم کا بحران آ جائے گا کیونکہ فلور ملز کو گندم خریداری کا کہہ دیا ہے، فلور ملز کبھی بھی اس موسم میں گندم نہیں خریدتی، گندم مافیا 25سو روپے سے تین ہزار فی من گندم خریدے گا جس سے مسائل پیدا ہوں گے، اکتوبر نومبر میں گندم کا شارٹ فال پیدا ہوجائے گا، ہم حکومت کی گندم پالیسی کو مسترد کرتے ہیں، اگر کسان احتجاج کریں گے تو پی ٹی آئی ساتھ کھڑی ہوگی، حکومت کی کسان دشمن پالیسی ہے۔ رکن اسمبلی قیصر سندھو نے اپنے خطاب میں کہا کہ گندم کا ریٹ پانچ ہزار ہونا چاہئے، ٹارگٹ گندم کا ریٹ تین ہزار روپے ہے تو گندم پالیسی کیسے دی ہے، لاہور میں بیٹھ کر کس طرح کے فیصلے کررہے ہیں، ادویات کھادیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ رکن اسمبلی رانا محمد سلیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ گندم پالیسی پر نظر ثانی کی جائے، کسانوں کو ساتھ بٹھا کر حل نکالیں۔ اپوزیشن کے رکن اسمبلی حسن بٹر نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کی طرح میں پاکستان میں بھی آڑھتی کے ہاتھوں کسان برباد ہوکر خود کشیوں پر مجبور ہوجائے گا، سندھ میں گندم کی امدادی قیمت 42سو روپے مقرر کی گئی تو یہی قیمت پنجاب میں بھی دی جائے۔ رکن اسمبلی سید عامر شاہ نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ رکن اسمبلی اعجاز شفیع کا کہنا تھا کہ حکومتی فوڈ پالیسی جھوٹ کا پلندہ ہے، یہ کسان دوست نہیں کسان دشمن حکومت ہے، باہر سے گندم خریدی جا رہی ہے، زمیندار سے پٹواری 25سو سے 28سو روپے فی من گندم خرید رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ رکن اسمبلی عمر فاروق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ملک کو تباہ و برباد کردیا اور اداروں پر حملے کئے۔ رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسنگ پرسن پر بات ہونی چاہئے، جو لوگ قتل ہوتے ہیں تو ان کا بھی کوئی احوال ہونا چاہئے، ہمیں دہشت گردی کی مذمت کرنا ہوگی تاکہ پنجاب سے آواز اٹھے، گندم کے حمام میں سارے ننگے ہیں۔ رکن اسمبلی صلاح الدین کھوسہ نے کہا کہ اگر حکومت کی گندم پالیسی برقرار رہی تو کاشتکار اور گدھے کا فرق مٹ جائے گا، اگر حکومت گندم نہیں خرید سکتی تو دوسرے ملکوں کی طرح برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپیکر نے ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔