علامہ شبیر احمد عثمانی: ’’ شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو ‘‘
مولانا ظفر علی خان : ’’ تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو۔ ‘‘
علامہ عنایت اللہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا: ’’ اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا۔ ‘‘
لیاقت علی خان : ’’پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔
’’ قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی ‘‘
علامہ اقبال : ’’ایک خط میں علامہ نے قائد کو لکھا \\\"برطانوی ہند میں اس وقت صرف آپ ہی ایسے لیڈر ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے کا حق پوری ملتِ اسلامہ کو حاصل ہے‘‘۔
علامہ کی بیماری کے دوران جواہر لال نہرو ان کی عیادت کو آئے۔ دورانِ گفتگو نہرو نے حضرت علامہ سے کہا \\\"حضرت آپ اسلامیانِ ہند کے مسلمہ اور مقتدر لیڈر ہیں کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسلامیانِ ہند کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔\\\" تو حضرت علامہ نے فرمایا، \\\"جواہر لا ل! ہماری کشتی کا ناخدا صرف مسٹر محمد علی جناح ہے میں تو اس کی فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں۔\\\"
مفتی ٔ اعظم فلسطین سید امین الحسینی: ’’قائدِ اعظم دسمبر 1946ء میں لندن سے واپسی پر قاہرہ میں ٹھہرے۔انہی دنوں مفتی اعظم قاہرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک تقریب میں آپ نے قائد کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا‘‘۔
\\\" میں نے محمد علی جناح سے گفتگو کی ہے۔ مجھ سے زیادہ برطانوی ملوکیت کا دشمن شاید ہی کوئی ہو۔ میں نے محمد علی جناح کے خیالات کو انگریز دشمنی کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ وہ حقیقتاً آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کے لیے انگریز سے مقابلے کا عزم رکھتے ہیں۔ میں ان سے گفتگو کے بعد اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ جناح صاحب نہ صرف دستوری اور آئینی شخصیت کے حامل ہیں بلکہ انقلابی رہنما بھی ہیں۔ انقلابی افکار و خیالات ان کے دل و دماغ میں راسخ ہو چکے ہیں۔ مجھے اس امر کا یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان کے عوام اپنی آزادی کے لیے برطانوی شہنشاہت اور ہندو سرمایہ داری دونوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں\\\"۔
مولانا ابوالکلام آزاد: ’’\\\"قائدِ اعظم محمد علی جناح ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے‘‘۔
فخر الدین علی احمد (سابق صدر بھارت) : ’’میں قائدِ اعظم کو برطانوی حکومت کیخلاف لڑنے والی جنگ کا عظیم مجاہد سمجھتا ہوں‘‘۔
کلیمنٹ اٹیلی (وزیرِ اعظم برطانیہ): ’’نصب العین پا کستان پر ان کا عقیدہ کبھی غیر متزلزل نہیں ہوا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جو انتھک جدو جہد کی وہ ہمییشہ یاد رکھی جائے گی ‘‘۔
مسولینی (وزیرِ اعظم اٹلی) : ’’قائدِ اعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جو کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے‘‘۔
بر ٹرینڈ رسل (برطانوی مفکر) : ’’ہندوستان کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں ایسی محبوبیت نصیب ہوئی ہو‘‘۔
مہاتما گاندھی: ’’ جناح کا خلوص مسلم ہے۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں۔ میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں‘‘۔
مسز وجے لکشمی پنڈت: ’’اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا ‘‘۔
ماسٹر تارا سنگھ (سکھ رہنما) : ’’\\\"قائدِ اعظم نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی‘‘۔
سر ونسٹن چرچل: ’’برطانوی وزیرِ اعظم \\\"مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بے حد سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لوچ نہیں پایا جاتا۔ وہ مسلم قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں‘‘
پروفیسر اسٹینلے: ’’جناح آف پا کستان\\\" کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔
\\\" بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے ‘‘۔