لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
مغلیہ خاندان کے زوال پذیر ہوتے ہی ہندوستان کے مسلمان زیرعتاب آ گئے۔ اب ان کو دوطرفہ خطرات کا سامنا تھا۔ ایک تو ہندو¶ں کی روائتی حقارت جو مسلمانوں کی تقریباً ایک ہزار سالہ دور حکمرانی کا بدلہ لینے کی منتظر تھی اور دوسری طرف انگریز راج کا مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک‘ ناانصافیاں اور نہایت جانبدارانہ رویہ‘ بنگال میں سراج الدولہ اور میسور میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے زبردست مزاحمت کی لیکن ان اٹھارویں صدی کے اسلامی ہیروز کو اپنی ہی آستینوں کے سانپوں نے ڈس کر ڈھیر کردیا۔ پھر انیسویں صدی کے اوائل میں 7 اکتوبر 1817 عیسوی کو‘ مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں ایران سے ہجرت کر کے آنےوالے ایک مسلمان خاندان کے گھر دہلی میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام سر سید احمد خان رکھا گیا۔ سر سید کا شجرہ نسب حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔ 1857ءکی جنگ آزادی کے وقت سر سید احمد خان کی عمر چالیس برس کی تھی۔ اس جنگ کے فوراً بعد انگریزوں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو فارغ کر کے‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار ختم کیا اور ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کی عملداری میں لے لیا پھر مسلمانوں کی نسل کشی کا کام بہت بے رحمی سے شروع ہو گیا۔ بڑے بڑے معتبر خاندانوں کے چشم و چراغوں کو سرعام پھانسیاں دی گئیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا بے شک یہ ایک نازک ترین دور تھا جس کو سر سید احمد خان نے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ وہ سر سید جو پہلے ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے تھے اب ہندو ذہنیت کو پہچان گئے اور 1867ءمیں سرکاری دفاتر میں اردو رسم الخط کی جگہ ہندی زبان رائج کرنے کی سازش کی زبردست مخالفت کر کے اور یہ سوچ کر کہ ہندو اور مسلمان کسی طرح بھی باوقار طریقے سے اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے دو قومی نظریے کا تصور دے دیا۔ جس کی بنارس کے انگریز کمشنر سر ولیم شکسپیئر نے سر سید احمد خان سے ملاقات کے بعد تصدیق کر دی۔
سر سید نے علی گڑھ میں دارالعلوم بنایا اور دو رسالے ”تہذیب الاخلاق“ اور ”اسباب بغاوت ہند“ نکالے جس میں انگریزوں کے جرائم کا ذکر کیا۔ 27 مارچ 1898ءکو جب سر سید احمد خان کی زندگی کا چراغ گل ہوا تو آزادی کی مشعل علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے تھام لی۔ بیسویں صدی کی ان دونوں عالمی شخصیات کے آزادی کے ہراول دستے میں پھر اور بہت سارے سرفروش شامل ہو گئے اور آخرکار 14 اگست 1947ءکو پاکستان وجود میں آ گیا۔ پاکستان کی تخلیق میں نہ پنجابی کا ہاتھ تھا نہ سندھی‘ بلوچی یا پٹھان کا۔ یہ ایک خالصتاً سیاسی قانونی اور اخلاقی جنگ تھی جس کو اس وقت سارے ہندوستان میں موجود دس کروڑ مسلمانوں نے لڑا۔ ان مسلمانوں نے بھی جو آزادی کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان نہیں آئے۔ ان کو اپنی مشکلات کی وجہ سے پتہ بھی تھا کہ وہ آزاد پاکستان میں نہیں جا سکیں گے لیکن ان کا اس بات پر پکا یقین تھا کہ آزاد اور مضبوط مسلمان ریاست پاکستان ہندوستان میں پیچھے رہ جانےوالے مسلمانوں کے حقوق کا بھی تحفظ کر سکے گی۔ اسلئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہندوستان کے طول و عرض میں رہنے والے سارے مسلمانوں کے مفادات بھی آزاد پاکستان کے وجود سے وابستہ ہیں۔ قارئین آپ کو پتہ ہے کہ چین‘ الجیریا‘ ویتنام اور حتیٰ کہ امریکہ جیسے ممالک خانہ جنگیوں اور لڑائیوں کے بعد آزاد ہوئے۔ یہ قائداعظم محمد علی جناح کی بصیرت تھی کہ پاکستان کی تخلیق میں افواج کا کردار نہ تھا۔ قارئین یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جہاں آزادی حاصل کرنا بہت ہی کٹھن اور مشکل ترین کام ہے وہاں آزادی کا بعد میں تحفظ کرنا اس سے بھی زیادہ پرخار راستہ ہے جس کیلئے کردار کی مضبوطی‘ نڈر اور اہل قیادت کی موجودگی‘ اتم درجے کی سیاسی بصیرت اور کرسٹل کلر سفارتی اور معاشی وژن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو پاکستان کا مطلب کیا لا ا لہ الا اللہ کے نعرے کا تمسخر اڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کا ریاست یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ قائداعظم نے سیکولر ریاست بنانے کی تگ و دو کی تھی لیکن مضبوط ایمان والے لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان 14 اگست 1947ءکو نہیں بلکہ 1368 ہجری کے 27 رمضان المبارک‘ شب قدر اور یوم جمعة الوداع کو وجود میں آیا۔ قارئین رمضان کے مبارک ماہ کے آخری عشرے کے جمعة الوداع کے ایسے دن جس دن قرآن کریم بھی نازل ہوا۔ ایک مسلمان ملک کا قیام محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔دیکھنے والی آنکھیں پاکستان کے ظہور کو مسلمانوں کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ کہتی ہے جو رمضان‘ قرآن‘ اسلام اور پاکستان کے ایک نہایت مضبوط باہمی رشتے کو اجاگر کرتا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع جوش نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ ”دو قومی نظریہ درحقیقت اسلام کے عقائد واعمال کا نام ہے“۔ قارئین میں نہایت دیانتداری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ مثبت نتائج اگر مہینوں میں نہیں تو ایک دو سالوں میں تو ضرور سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے مندرجہ ذیل چیزیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں۔
(1) موجودہ نظام جس میں نااہل قائدین‘ چوروں‘ لٹیروں‘ مفاد پرستوں‘ کرپٹ اور جعلی ڈگری رکھنے والوں کی اسمبلیوں تک پہنچنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہمیں بدقسمتی سے موجودہ گھمبیر صورتحال سے نہیں نکال سکتا۔ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں جس میں یہ ممکن نہ رہے کہ چیف ایگزیکٹو کوئی اور ہو اور ملک کوئی اور چلائے اور ووٹوں کے طالب سیاستدان وزارتوں کی تجوریوں پر بیٹھے ہوں اور اپنے سیاسی مقاصد کیلئے میرٹ اور انصاف کی دھجیاں اڑائیں۔
(2) نومنتخب دیانتدار قیادت کی پہلی ترجیح ایک ایسے یکساں‘ متوازن اور مساوی نظام تعلیم کی ترویج ہونی چاہئے جو سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ معاشیات‘ تاریخ اور جغرافیے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم‘ احادیث‘ شریعت اور معمہ کی بنیادی اور اعلیٰ اسلامی تعلیمات اور اقدار سے معطر ہو۔
(3) حکومت وقت ٹیکنیکل پیشہ ور لوگوں کا ایک قومی کمشن بنائے جو ملک کے اندر ہوائی اڈے‘ شاہراہیں بنانے اور معدنی وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے نئی کانیں لگانے‘ چھا¶نیاں بنانے اور چھوٹے اور کالا باغ جیسے بڑے ڈیم بنانے کی فوری منظوری دیں۔ قومی مفادات کیلئے ان بڑے منصوبوں پر سیاست کرنے والوں پر اعلیٰ ترین عدالتیں تاحیات سیاست کرنے پر پابندی لگا دےں اور ان فلاحی کاموں میں روڑے اٹکانے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔
(4) آزاد عدالتوں اور احتساب کا ایسا کڑا نظام رائج کیا جائے جس کی گرفت سے فقیر سے لے کر بادشاہ تک کوئی بچ نہ پائے۔
قارئین آخر میں رمضان کے مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کہ اے خدا ہماری کوتاہیوں‘ لغزشوں اور گناہوں کو معاف فرما اور ہمیں اس گھٹاٹوپ اندھیرے سے باہر نکال تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں اور بچوں کیلئے ایک بہتر اور خوشحال پاکستان چھوڑ کر جائیں۔ اے اللہ تو غفور الرحیم ہے تو اس اندھیری رات میں چراغ بھی روشن کر سکتا ہے اور جلدی سحر بھی کر سکتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا
کب تلک میرے بچے اندھیر میں بھٹکیں
کوئی چراغ ہو روشن یا پھر سحر کر دے
”کوئی چراغ ہو روشن یا پھر سحر کر دے“
Aug 17, 2012