ان المیوں کو بڑھنے سے روک لیجئے

رمضان کا مہینہ گزر ہی گیا میں نے ان دنوں اپنے ملک اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کا بغور جائزہ لیا ہے اور اب سوچ رہی ہوں کہ رمضان سے قبل ہم کس قدر دعوے کرتے ہیں کہ ہمارا مقدس ترین مہینہ آ رہا ہے اس مہینہ کی عبادت ہماری آخرت سنوار سکتی ہے۔ مسجدوں میں صفائی ستھرائی اور دیواروں پر چونا کروایا جاتا ہے نئی دریاں نئی صفیں اور چٹائیاں ڈالی جاتی ہیں۔ افطاری کا وافر انتظام کیا جاتا ہے ٹی وی پر نئے پروگرام شروع کئے جاتے ہیں۔ نعت خوانی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک پروگرام میں سوالات پوچھنے اور انعامات دینے کا انتظام بھی تھا۔ اکثر خواتین نعت پڑھتے ہوئے آدھی یا بغیر آستین کی قمیض میں نظر آئیں بھئی یہ نعت شریف کا کیا احترام سکھایا جا رہا ہے یا رائج کیا جا رہا ہے پھر انعامات حاصل کرنے کے لئے باریش حضرات بھی کم لالچی نظر نہ آئے۔ مقدس محفلیں ایسی تو نہیں ہوتیں۔ ہم نے بہت انقلاب دیکھ لئے۔ یہ دیکھنا باقی تھا؟ آپ معاشرے میں بے راہروی پھیلاتے رہیں مگر نعت شریف پڑھتے ہوئے خواتین بلکہ جوان بچیوں کو یوں باریک اور آدھے لباس میں ہمیں منظور نہیں اور پروگرام کیا کم ہیں کہ تین بے حد کھلے گریبانوں اور بغیر آستین کے لباس میں نظر آتی ہیں اس مقدس محفل کا تو احترام کر لینا چاہئے....
خیر ٹی وی پروگراموں کی تو اپنی دنیا ہے۔ میرے ہاں جو اتنے سارے اخبارات آتے ہیں ہر اخبار میں بے حد دکھ دینے والی خبروں کی تعداد اس بار زیادہ رہی۔ یعنی ”اوباش“ حضرت بڑے دھڑلے سے لوگوں کے گھروں میں گھستے ہیں اور خواتین۔ اپاہج بچیاں ننھی منی پیاری پیاری بچیاں وہ منٹوں میں تباہ و برباد کر کے یہ جا وہ جا۔ اس بار تو لگتا تھا کہ ان کم بختوں نے رمضان کا یہ خاص پروگرام بنا رکھا تھا کن گھروں سے مرد صبح کتنے بجے نکل جاتے ہیں کھیتوں کھلیانوں میں کس وقت خواتین اکیلی ہوتی ہیں تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہیں یہ لڑکیاں کس کس وقت شاپنگ پر نکلتی ہیں....یا اللہ ایسی تباہی۔ ڈاکو گینگ تو بہت سن رکھے تھے مگر یہ گینگ اور پھر روزوں میں؟ یہ ناقابل برداشت خبریں پڑھ کر اپنی معاشرتی قدروں کی تباہی پر بے حد دکھ ہوتا رہا۔ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کسی کے گھر سے والدین کو کہیں کسی کی مرگ یا بیماری پر اچانک جانا پڑ جاتا تھا۔ تو وہ کسی محلے دار کے سپرد کر جاتے تھے کہ ذرا ہمارے گھر کا خیال رکھنا۔ محلے دار بیچارہ اپنی چھت پر شام اور رات گزارتا تھا مگر اب تو محلے دار ہی غنڈے بن جاتے ہیں۔ ہماری اقدار کیوں بدل گئیں؟ بچیاں تعلیمی اداروں میں بھیج کر مائیں سارا دن ان کی واپسی کے لئے پریشان رہتی ہیں۔ کیا اب ہمارے محلوں ہمارے آنگنوں ہماری گلیوں سے مشرقی اور اسلامی اقدار کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ اور اب بے راہروی کی حالت بہ اینجا رسید کہ ان دنوں جو ناقابل برداشت خبریں پڑھنے کو ملیں ان میں بہت چھوٹے لڑکوں سے زیادتی کے کیس بھی ہیں۔ پھر یہ غنڈے انہیں زخمی کر کے چلے جاتے ہیں اکثر ان کمسنوں کی لاشیں کسی زیر تعمیر بلڈنگ سے ملتی ہے یا کسی کھیت کھلیان سے۔ والدین بچوں کو سودا لینے بھیجتے ہیں منتظر رہتے ہیں مگر لاش دوسرے تیسرے دن ملتی ہے۔ بچوں کو چھوڑیئے جوان لڑکوں کے ساتھ بھی ایسی وارداتوں کی خبریں ہیں۔ کیا سب ہمارے معاشرے کے زوال کی نشانیاں ہیں؟ کیا اللہ میاں نے ان ظالموں کی رسیاں ڈھیلی کر رکھی ہیں یا ہماری حکومت ہماری انتظامیہ اور ہماری پولیس کی کمزوری ہے؟ غنڈوں کو کسی کا ڈر کیوں نہیں ہے؟ وہ بڑے دھڑلے سے وارداتیں کرتے ہیں اور اس مقدس مہینے میں اس عبادت کے ایک ماہ میں جو میں نے شمارکیں پڑھی ہیں روزانہ کی آٹھ دس وارداتیں ہیں؟ اس مہینہ میں ہمارے ہاں شیطان کو اتنی کھلی چھٹی کیوں دی گئی کس نے دی؟ کیا حکومت نے ان وارداتوں پر توجہ دینا کم کر دی ہے؟؟ وہ اپنی حکومت اپنی اپنی کابینہ کو بنانے ہٹانے پر لگی رہی پولیس ان کی آﺅ بھگت کیلئے تیاریاں کرتی رہی اور غنڈوں کو کھلی چھٹی۔ اب سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس مقدس مہینے کا احترام کیسے سکھایا جائے گا؟ تعلیمی اداروں میں اس مسئلے کو اٹھایا جائے؟ حکومت اس کے لئے کوئی نیا محکمہ بنائے؟ غنڈوں کی سزا (اگر وہ پکڑے جائیں پکڑ لئے جائیںتو کسی بڑی سے بڑی سفارش کی اور رشوت قبول نہ کی جائے) اور انہیں پوری سزا دی جائے بلکہ ایسی سزا جس سے دوسروں کو بھی احساس ہو جائے کہ وہ پہلے ہی ڈر جائیں ہم سے پہلے جو قومیں آئیں ان کے زوال بھی اسی طرح آئے کہ حکومتیں کمزور ہو گئیں بدکردار لوگ غالب آ گئے پھر اللہ میاں نے وارننگ دی زلزلے آئے سیلاب آئے غنڈے اور شہ پر آ گئے ان کی سیلاب زدگان اوبھوکے ننگے عوام کی بچیاں اور ان کے جوان بلکہ کم عمر لڑکے باعث تسکین و تفریح بن گئے اور پھر وہ تباہ ہو گئے کیا ہم بھی تباہی کی طرف بڑھ چکے ہیں ہمارے ہاں غنڈے، اوباش زور آور ہو چکے ہیں حکومت کئی جگہ تو بے بس نظر آنے لگتی ہے ویسے حکومت ہے کہاں؟؟ کوئی بھی حکمران نوٹس نہیں لے رہا کہ معاشرہ کو راستی پر لائے اس پورے ایک ماہ میں خواتین کی بے شمار مجالس، محفلیں اور درس ہوتے رہے ہیں ان گھروں کے باہر (جہاں یہ پاکیزہ محفلیں منعقد ہوتی رہی ہیں) دور تک کاریں کھڑی دکھائی دیتی ہیں اس کے بعد کاریں بازاروں میں داخل ہو جاتی ہیں خواتین شاپنگ کرنے جاتی ہیں ظاہر ہے گھروں کا سودا سلف آج کل خواتین ہی لاتی ہیں۔ وہاں انہیں غنڈوں کی چھیڑ چھاڑ سے واسطہ بھی پڑتا ہے دست درازی بھی ہوتی ہے اور نئے نئے المیے خبریں بن جاتی ہیں۔ کیا المیوں پر میری طرح کسی اور نے بھی غور کیا؟ تو اس کا کیا حل سوچا؟ بتائیے گا ضرور؟؟

ای پیپر دی نیشن