وزیراعظم کے نام ایک کھلا خط!

یہ بات زیادہ پرانی نہیں کہ تیز اور شوخ رنگوں کی ٹائیاں لگانے والے ایک وزیرداخلہ کا سب مذاق اڑاتے تھے۔ وہ میڈیا پر ’’چھایا‘‘ رہتا مگر میڈیا اس سے طنزیالوجی طنزیالوجی کھیلتا رہتا۔ وہ مسکراتا رہتا اور اپنے باس کے اشاروں پر متحرک رہتا۔ ایم کیو ایم کا روزانہ روٹھنا معمول تھا مگر اسے روزانہ ہی منانا رحمن ملک کا شیڈول تھا۔ پھر وہ طالبان کے خلاف روزانہ باتیں کرتا‘ روزانہ چیلنج دیتا‘ سب کہتے کہ جونہی زرداری حکومت ختم ہو گی تو جو پاکستان سے سب سے پہلے بھاگے گا‘ وہ رحمن ملک ہوگا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ سب کہتے طالبان کی جانب سے اسے سب سے زیادہ تھریٹ ہوگا۔ سو یہ پاکستان میں نہیں رہ پائے گا‘ لیکن وہ رہ رہا ہے۔ رحمن ملک کو صرف سابق صدر آصف علی زرداری کا بندہ گردانا جاتا نہ پیپلزپارٹی کا جیالا اور نہ عوامی لیڈر‘ اس کے برعکس آج کا وزیرداخلہ میڈیا ڈارلنگ بھی ہے‘ عوامی نمائندہ اور کافی حد تک ہردلعزیز لیڈر بھی‘ لیکن ہے کوئی جو بتا سکے کہ چودھری نثار علی خان کی کارکردگی اور حسن کارکردگی کہاں ہے؟
کراچی میں ہونے والے آپریشن کی ہر پاکستانی حمایت کرتا ہے۔ کیا جیالا‘ کیا متوالا اور کیا نرالا‘ ہر پارٹی کا کارکن اس کی حمایت کرتاہے حتیٰ کہ ایم کیو ایم کا سنجیدہ کارکن بھی کراچی آپریشن کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ ممکن ہے آپریشن میں کچھ غلطیاں بھی سرزد ہو گئی ہوں‘ لیکن آپریشن تو آپریشن ہوتا ہے‘ بعض اوقات گولی یا گالی کا رخ جوش اور جلد بازی میں غلط سمت کی جانب بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن نیت اور ارادے کا مسئلہ درست رہنا فرض ہے۔ آپریشن میں مصروف ایک اہلکار اور افسر سے لیکر وزات داخلہ اور حکومت کا قبلہ درست رہنا ضروری ہے وگرنہ ہر آپریشن سائیڈ افیکٹ رکھتا ہے۔ کراچی آپریشن حقیقت میں ملک دشمن عناصر‘ ’’را‘‘ کی کارروائیوں اور امن کے قیام کے دشمنوں کے خلاف ایک حکمت عملی ہے۔ جسے آپریشن کہہ لیں یا ڈکٹیشن‘ کسی کے مینڈیٹ کے خلاف بولے جانے والا دھاوا بالکل نہیں۔ بہرحال ضرورت اس امر کی تھی سیاسی افراد سیاسی قائدین کا روپ دھارتے ہوئے ایم کیو ایم کو راضی بھی رکھتے اور آپریشن بھی جاری رکھا جاتا۔
جناب وزیراعظم پاکستان! آپ رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملکی ترقی کیلئے ملکی امن کو لازمی سمجھتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف بھی آپ پُرعزم ہیں۔ ضرب عضب کے آخری مراحل میں ہونے پر بھی آپ درست مسرور اور مطمئن ہیں‘ لیکن کمین گاہ کی طرف نگاہ دوڑانا بھی ضروری ہے کہ ٹیم ورک درست جا رہا ہے یا ماضی کی غلطیاں اور ماضی کی مخصوص تاریخ ہمراہ ہے؟ کیا وزراء کی کارکردگی درست ہے‘ اس پر غور ضروری ہے۔ آخر مشاہد اللہ خان کی زبان پھسلتی اور سسکتی کیوں ہے؟؟ برجیس طاہر سے رانا تنویر تک‘ وزارت اوورسیز سے عثمان ابراہیم کی کارکردگی تک اور وزرات داخلہ سے وزارت قانون تک کارکردگی میں واقعی رنگ و جمال ہے۔ اگر واقعی خوبصورتی اور ہنرمندی ہے تو انہیں بھی ملک کی 156 نمایاں شخصیات میں ’’شامل‘‘ کر لیا جاتا جنہیں 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر اعزازات سے نوازا گیا۔ اگر یہ ’’نمایاں شخصیات‘‘ میں شامل نہیں ہیں تو پھر ان کی وزارتوں کا برقرار رکھنا ان کی اپنی ذات پات کیلئے تو ممکن ہے‘ ضروری ہو مگر ملک و ملت کیلئے نہیں۔ ستارۂ امتیاز ہو کہ تمغۂ امتیاز‘ یہ کبھی ’’وزرائ‘‘ کو بھی دیدیا کریں۔ اگر یہ اس کے اہل نہیں تو پھر کس چیز کے اہل ہیں۔ اس کا راز اور پتہ تو پھر وزیراعظم محترم ہی جانتے ہیں۔ جی ہاں! کراچی آپریشن بھی ضروری ہے اور ایم کیو ایم کے استعفوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔
68 ویں یوم آزادی پر عمران خان کا دھرنا اور پھر تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفوں کا ’’تمغۂ امتیاز‘‘ حکومت کو ملا اور 69 ویں جشن آزادی پر ایم کیو ایم کی جانب سے ’’ستارۂ امتیاز اور تمغہ شجاعت‘‘ حکومت کو ملا۔ گویا یکے بعد دیگرے حکومت کو جشن آزادی کے موقع پر حسن کارکردگی کی پاداش میں ستارے اور تمغے ملے۔ میاں صاحب آپ خوش قسمت ترین وزیراعظم ہیں کہ آپ کو 1۔ مینڈیٹ ملا‘ 2۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ملی‘ 3۔ کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی بین الاقوامی سطح پر کمی ملی‘ 4۔ سعودی عرب سے مالی امداد میسر ہوئی‘ 5۔ عمران خان کے دھرنوں کے خلاف پی پی پی‘ اے این پی‘ مولانا فضل الرحمن‘ ایم کیو ایم اور دیگر پارلیمانی جماعتوں سے لیکر آرمی تک کی سپورٹ اور حکمت عملی کرنے کی ضمانت ملی‘ لیکن کیا اسحاق ڈار اور انوشہ رحمن یا خواجہ آصف اور اکرم درانی و ریاض پیرزادہ کی جانب سے اچھی وزارتی کارکردگی کی نوید بھی ملی؟ صدر الدین راشدی اور مرتضیٰ جتوئی کہاں ہیں؟
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے
حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کہتے پھر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو منانے کا ٹاسک وزیراعظم نے مجھے دیا۔ فضل الرحمن صاحب تو ہمیشہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سے کامیڈی کامیڈی کھیلتے ہیں‘ بھلا ایم کیو ایم کے استعفوں میں کیا کردار ادا کریں گے۔ اس میں کردار بنتا تھا تو (ن) لیگ کے اپنے قائدین کا نہیں تو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اس کیلئے مؤثر ترین آدمی تھے۔ قائم علی شاہ اور خورشید شاہ میں بہرحال زمین آسمان کا فرق ہے۔ ابھی ایم کیو ایم کی جانب سے ایک عندیہ تھا کہ اگر ان کے تحفظات کو مدنظر رکھا جائے جو استعفے واپس لئے جا سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کا ووٹر اس سے ناراض ہو جائے۔ جو بھی کہہ لیں یا سمجھ لیں‘ ایم کیو ایم کے پاس ووٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد آج بھی موجود ہے لہٰذا خود ایم کیو ایم کو بھی سیاسی اور جمہوری سچے رنگوں سے اجتناب نہیں کرنا چاہئے اور قومی دھارے میں رہنا چاہئے۔ حکومت بھی استعفوں کی ضرب کاری اور کلاکاری سے بچے۔ اگر پی پی پی بھی ایم کیو ایم یا تحریک انصاف کی نہج پر آگئی تو واضح مینڈیٹ بھی حکومت کو نہیں بچا سکے گا۔ حکومت یہ بات ذہن میں رکھے کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور عام آدمی کی رسائی انفارمیشن کی تہہ تک پہنچ چکی ہے لہٰذا پاکستان آرمی یا سالار اعظم کی کارکردگی کو وزیراعظم کے حسن کارکردگی میں گڈمڈ نہیں سمجھا جائے گا‘ لیکن پھر بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وزیراعظم بحیثیت کپتان ٹیم سے بہتر کھیل رہے ہیں۔ جب تک ٹیم کے دیگر ممبران بھی پروفیسر احسن اقبال‘ بلیغ الرحمن‘ سائرہ افضل تارڑ اورخرم دستگیر کی طرح نہیں کھیلیں گے‘ ترقی اور کامیابی ممکن نہیں۔ قوم ایک متحرک اور زیرک مکمل وزیر خارجہ کی بھی منتظر ہے۔ کامیاب و کامران حکومت کیلئے وزارت خارجہ‘ وزارت داخلہ کی کارکردگی ضروری ہے‘ لفاظی نہیں۔
آرمی عدالتوں کی طرف سے حال ہی میں آرمی سکول اور سانحہ صفورا کے 7 مجرموں کو سزائے مو ت دینا اور آرمی چیف کی جانب سے عدالتی فیصلے کی توثیق بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ایسے واقعات درکار ہیں جن کا سلسلہ ملکی وقار‘ ترقی‘ امن اور خوشحالی کا زنجیری عمل ہو۔ حساس معاملات اور ان کے خیالات و احساسات کو باریک بینی اور دوررس نتائج کے تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ رفتہ رفتہ لوگ مشرف کے ترقیاتی اور مخصوص انداز کو اور زرداری کی آئینی اصلاحات کو زیربحث لانے لگے ہیں۔ تحریک انصاف کا نوجوانانہ تھریٹ بھی اپنی جگہ‘ احتساب کو فراموش کرناممکن نہیں رہا۔ قوم کو صحت‘ تعلیم اور فراہمی انصاف کی ضرورت ہے۔ یہ سب ہوگا تو ملک میں امن اور جمہوریت پروان چڑھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن