لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک، نماز جنازہ میں آرمی چیف بھی شریک ہوئے

راولپنڈی+ لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ خصوصی نامہ نگار) معروف دانشور، جہاد افغانستان کے ہیرو سابق کور کمانڈر اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کو اتوار کی شام پورے قومی اور فوجی اعزاز کے ساتھ ہزاروں سوگواروں کی اشکبار آنکھوں کے سامنے آرمی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اس موقع پر پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے سلامی دی۔ عسکری قیادت کی طرف سے قبر پر پھول چڑھائے گئے۔ نماز جنازہ میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف، کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قمر باجوہ، آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان، سابق آرمی چیفس جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی، اسلم بیگ، عبدالوحید کاکڑ، وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، جنرل (ر) سوار خان، فیض علی چشتی، علی قلی خان، توقیر ضیائ، آزاد کشمیر کے سابق صدر میجر جنرل (ر) سردار محمد انور خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان، مولانا سمیع الحق، اعجاز الحق، مولانا یوسف شاہ، مولانا عبدالرحمن مکی، مولانا فضل الرحمن خلیل، کشمیری رہنما غلام محمد صفی، سید یوسف نسیم، سید صلاح الدین، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے مشیر ڈاکٹر شہزاد وسیم، احمد رضا قصوری، ہائی کورٹ بار کے صدر توفیق آصف، سرگودھا بار کے سابق نائب صدر خالد اقبال مسرت، جماعت اسلامی کے شمس الرحمن سواتی، شاہد شمسی، صحافیوں میں الطاف حسین قریشی، مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، سعود ساحر، طارق وارثی، نواز رضا سمیت بڑی تعداد میں سیاسی و سماجی شخصیات، نوجوانوں اور عوام نے شرکت کی۔ حمید گل کے دونوں صاحبزادے عمر گل اور عبداللہ گل بیرون ملک ہونے کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کر سکے۔ مرحوم کے داماد یوسف گل سے شرکاء جنازہ تعزیت کا اظہار کرتے رہے۔ ان کی صاحبزادی عظمیٰ گل جنازہ گاہ سے باہر گاڑی میں بیٹھی رہیں جہاں بعض لوگوں نے ان سے تعزیت کی۔ نماز جنازہ کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے جس کی وجہ سے نماز جنازہ کی ادائیگی میں پون گھنٹے کی تاخیر سے ہوئی۔ جنرل (ر) حمید گل کی نماز جنازہ کے بعد جنازے میں شریک نوجوانوں نے حمید گل زندہ باد، پاکستان کا مطلب لاالہ الا اللہ، حمید سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، کشمیر سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، راحیل شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں کے پرجوش نعرے لگائے۔ بعض شرکاء نے سپہ سالار راحیل شریف سے ہاتھ بھی ملائے۔ اسی دوران سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) سوار خان نے جو وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کے ساتھ باہر آرہے تھے کہا کہ ’’نعرے باہر جاکر لگائیں‘‘۔گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جمعیت علماء اسلام س کے سربراہ مولانا سمیع الحق، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید، مجلس احرارِ اسلام پاکستان کے امیر مرکزیہ سید عطاء المہیمن بخاری، سیکرٹری جنرل عبدالطیف خالد چیمہ، سید محمد کفیل شاہ بخاری اور میاں محمد اویس، جماعت اہلحدیث پاکستان کے سربراہ امیر حافظ عبدالغفار روپڑی، ورلڈ پاسبان ختم نبوت میں شامل تمام مکاتب فکر کے علماء کے اجلاس میں حمید گل کے انتقال پر اظہار تعزیت کی گئی۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا محمد عبید اللہ، نائب مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم، حافظ اسعد عبید، مولانا حافظ اجود عبید، مولانا محمد اکرم کاشمیری، مولانا محمد یوسف خان، مولانا زبیر حسن، حافظ خالد حسن، مولانا فہیم الحسن تھانوی، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، صاحبزادہ عمار سعید سلیمانی، مفتی محمد رمضان جامی، میاں فہیم اختر، ملک بخش الٰہی، صاحبزادہ حسین رضا ایڈووکیٹ، متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین، جے یو آئی کے رہنمائوں محمد اکرم خان درانی، مولانا محمد امجد خان، حافظ حسین احمد، محمد اسلم غوری، سید فضل آغا، مفتی ابرار احمد، جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید، حافظ عبدالرحمن مکی، مولانا امیر حمزہ، قاری یعقوب شیخ، محمد یحییٰ مجاہد، حافظ خالد ولید، المحمدیہ سٹوڈنٹس کے مسئول محمد ارشد، مقبوضہ کشمیر میں بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے چیئرمین شبیر احمد شاہ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی اظہار تعزیت کیا ہے۔

لندن (نیٹ نیوز+ بی بی سی) بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے اولین نظریاتی ورثا کی فہرست بنائی جائے تو حمید گل کا نام سب سے اوپر ہوگا۔ دونوں کا تعلق آرمرڈ کور سے تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے جب پانچ جولائی کو اقتدار سنبھالا تو حمید گل بریگیڈئیر تھے۔ ضیاء الحق نے چیف آف آرمی سٹاف بننے سے پہلے ملتان میں قائم جس سیکنڈ سٹرائیک کور کو کمان کیا 1980ء میں میجر جنرل حمید گل کو اسی کور میں آرمرڈ ڈویژن کا کمانڈر مقرر کیا۔ بعدازاں وہ ہیڈ کوارٹر میں ملٹری آپریشنز کے نگراں بھی رہے۔ یہ وہ دور تھا جب افغان مہم عروج پر تھی۔ بی بی سی کے مطابق حمید گل آخری دن تک چاق و چوبند و متحرک رہے۔ سیاسی سکینڈلوں سے بھر پور مگر ذاتی سکینڈلز سے پاک زندگی گزاری۔ 79 سال کی عمر میں بھی وہ دیکھنے میں ساٹھ پینسٹھ برس سے زیادہ کے نہیں لگتے تھے۔ ٹویٹر، سوشل میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ سے چڑتے تھے مگر بی بی سی کے باقاعدہ سامع تھے، اس بارے میں رائے سے بھرے ایس ایم ایس بھیجتے رہتے تھے۔ اپنے نظریات کا کھل کے پرچار کیا تاہم ذاتی یادداشتیں مرتب نہ کرسکے۔ ان کی رخصتی سے پاکستان میں دورِ ضیا کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا ایک اور متنازعہ باب بند ہوگیا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...