یوم آزادی کے حوالے سے دو خبروں نے بہت تکلیف پہنچائی۔ نواز شریف کے رازدار اور قریبی ساتھی وزیر شذیر مشاہداللہ خان نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نیک نام اور جینوئن سربراہ جنرل ظہیر کی بے بنیاد کردار کشی کی ہے۔ اس کے پیچھے پاک فوج کو بدنام اور غیرمقبول کرنا تھا۔ دوسری خبر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ مرد مجاہد مرد وطن مرد اسلام جنرل حمید گل کے انتقال کے حوالے سے تھی۔ ان دونوں خبروں سے بھارت کو اطمینان ہوا ہو گا۔ جنرل حمید گل کے لیے اگلے کسی کالم میں میرا قلم آنسو بہائے گا اور یہ کالم کالم ہو جائے گا۔ شجاع خانزادہ 14 ساتھیوں سمیت شہید ہوئے اس خبر نے بھی رُلا کر رکھ دیا ہے۔
میں حیران بلکہ پریشان ہوں کہ مشاہداللہ ایک علمی آدمی ہیں۔ اشعار پڑھتے ہیں مگر وہ غیرسیاسی کیوں ہو گئے ہیں۔ ہمارے ڈرے ہوئے سیاستدان باہر سے فوجی نہیں ہوتے تو اندر سے غیرفوجی بھی نہیں ہوتے؟ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ جرنیل بننے کی کوشش کی ہے۔ شریف برادران تو مزاجاً آمرانہ جمہوریت کی راہ پر تھے؟ وہ ہر شخص اور ادارے کو اپنا تابع فرمان بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاک فوج پاکستانی پولیس کی طرح ہو جائے جو صرف ان کا حکم بجا لائے۔
ایک بار آئی ایس آئی کے ایک چیف جنرل ضیاالدین بٹ کو آرمی چیف جنرل مشرف کو بیرون ملک برطرف کر کے آرمی چیف بنایا گیا۔ اس کو جنرل کے بیج خود نواز شریف نے لگائے مگر انہیں جی ایچ کیو میں کسی نے گھسنے نہ دیا۔ اتنی پسپائی اور رسوائی میں نے کبھی آرمی چیف جرنیل کی نہیں دیکھی۔ اسے بعد میں نوازا گیا۔ ہمیشہ ریٹائر جرنیلوں کو ذلیل کیوں کیا جاتا ہے؟ ایک آرمی چیف کو بے قاعدہ نکالنے کی ناکام کوشش کے انجام سے کوئی سبق ضرور سیکھنا چاہئے۔ دلیر غیور اور جینوئن سیاستدان چودھری نثار اپنے نواز شریف کو سمجھائیں کہ آج کل فوج جمہوریت کی پاسبان ہے۔ پرویز رشید کی باتیں بھی قابل تعریف ہیں۔ جتنا اعتبار اور تحفظ جنرل راحیل نے نواز شریف کو دیا ہے۔ ”صدر“ زرداری الطاف حسین مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی وغیرہ اس کا تصور نہیںکر سکتے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سیاستدان ہی سیاسدان کے اصل دشمن ہیں۔ جرنیلوں کو دعوت دینے والے انہیں مضبوط کرنے والے سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔ صدر تو ایک باوردی جنرل مشرف تھا۔ باقی سب سیاستدان حکومت میں تھے۔ شیخ رشید کون ہیں؟ امیر مقام، طارق عظیم، زاہد حامد تو آج کل نواز شریف کے قریب ترین اور رازدار ساتھی ہیں۔
جنرل ظہیر کو تو نواز شریف اچھا نہیں جانتے تھے۔ جبکہ وہ ایک جینوئن جرنیل تھے۔ بڑے ڈسپلن سے ملازمت کی بڑی عزت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ انہیں ریٹائر ہوئے بھی کئی مہینے ہو گئے ہیں۔ دھرنے بھی ایک سال سے ختم ہو گئے ہیں۔ دھرنوں سے فائدہ نواز شریف نے اٹھایا۔ جنرل راحیل شریف ڈاکٹر قادری اور عمران کو بلانے کے لئے کہا تھا کہ نواز شریف کے استعفے علاوہ آپ کے سب مطالبات پر غور ہو سکتا ہے۔ اس ملاقات کو بھی قومی اسمبلی میں منفی طریقے سے پیش کیا گیا۔
ایک سرکاری صحافی پر کراچی میں مصنوعی خود ساختہ حملہ کر دیا گیا۔ اسے کوئی اچھی بھلی خراش بھی نہ آئی تھی۔ اس کے اور سرکار کے پسندیدہ ٹی وی پر جنرل ظہیر کی باوردی تصویر بار بار ایک ملزم کے طور پر دکھائی گئی۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مذکورہ صحافی آئی ایس آئی کا باقاعدہ ملازم رہا ہے۔ اس حرکت کے بعد اب بھی اپنے ٹی وی پر اپنے مطلب کے پروگرام کرتا ہے۔ مجھے آئی ایس آئی والوں پر بھی افسوس ہے کہ یہ کمپرومائز کس طرح ہوا ہے؟
بعد میں آج تک یہ دعویٰ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف نے اس برائے نام زخمی صحافی کی عیادت کی اور ایک لفظ آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر کے لئے نہ کہا۔ دوسرے دن آرمی چیف جنرل راحیل خود آئی ایس آئی کے دفتر میں جنرل ظہیر کے پاس چلے گئے تو سرکار کی پالیسی فوراً بدل گئی۔ اس بدنما خبر کی تشہیر انڈین میڈیا پر زیادہ کی گئی اور ایسی ایسی باتیں کی گئیں کہ خدا کی پناہ؟ کیا کوئی آدمی بھارت میں ”را“ کے خلاف کوئی بات کر سکتا ہے۔ ”را“ کے خلاف تو پاکستان میں بات نہیں ہوتی؟
جنرل ظہیر اور جنرل راحیل کی طرف سے ایک لفظ بھی ردعمل کے طور پر سامنے نہ آیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جنرل باجوہ نے بھی بڑی مہذب اور غیرسیاسی طریقے سے تردید کی۔ پاک فوج کی طرف سے اتنے صبر و تحمل اور تعاون کے باوجود یہ سیاسی رویہ ناقابل فہم ہے۔ کوئی انجانا خوف ہے جو سیاستدانوں کے دل میں بیٹھ گیا ہے۔ وہ ایسے اقدام کرتے ہیں کہ فوج کوئی کارروائی کرنے پر مجبور ہو اور پھر جمہوریت کی ڈگڈگی بجانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا جبکہ وہ کوئی کام تو کرتے ہی نہیں۔ کرپشن بدعنوانی، بدعملی، بدفعلی بچوں کے ساتھ زیادتی، ٹارگٹ کلنگ حکومت کا بالکل بے اثر ہونا ایک دوسرے کی نااہلیوں پر پردہ ڈالنا کوئی جمہوریت ہے۔
سیاستدان سچی طرح جمہوریت لائیں اور جمہور کے لیے کام کریں۔ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے۔ اس صفحے کے دوسری طرف دیکھیں کیا لکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ صفحہ نہیں ہے۔ یہ ورقہ ہے۔ امرتا پریتم کا مصرعہ پھر سنانے کو جی کرتا ہے۔
توں اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
بے عشق حکمرانوں اور سیاستدانوں نے قوم کو برباد کر دیا۔
آئی ایس آئی کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے بھارت بہت آگے ہے اور ہمارے یہ ”پاکستانی“ صحافی اس کے پیچھے پیچھے ہیں۔ اس کے لیے سرکاری خفیہ ایجنسی آئی بی کا نام لیا گیا ہے۔ اب آئی بی کی آئی ایس آئی کے سامنے کیا اوقات ہے۔ آئی ایس آئی دنیا کی مانی ہوئی نمبر ون خفیہ ایجنسی ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں اس سے ڈرتے ہیں اور اسے بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے مگر وہ اب تک ناکام ہوئے ہیں۔ بدنام بھی ہوئے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو ناکامی اور بدنامی سے شرم نہیں آتی۔ اس لیے مسلسل اس سازش میں مصروف ہیں۔ کچھ ”پاکستانی“ بھی ان کے ساتھ ہیں؟
میں مشاہداللہ خان کو جانتا ہوں۔ وہ پڑھے لکھے آدمی تو ہیں مگر ان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنے طور پر اتنا بڑا اور بُرا بیان دے سکیں۔ اس کے پیچھے بہت سے لوگ ہیں جو مسلسل کام کر رہے ہیں جن کو اب پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ بھی فوج سے ازخود ڈرتے ہیں۔ انہیں اصل میں اپنے اوپر اعتبار نہیں ہے۔ گڈ گورننس تو دور کی بات ہے ان کے دور حکومت میں گورننس بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی وزیر یا رکن نواز شریف کے سامنے بول نہیں سکتا۔ نواز شریف کی اجازت کے بغیر کوئی ڈکار نہیں لے سکتا۔ نواز شریف کو اپنی سیاست پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ وہ اپنے شاندار اور وفادار دوست چودھری نثار سے مسلسل اور قریبی رابطہ رکھیں۔
آپریشن ضرب عضب بہت شاندار اور ایمان افروز کامیابی جنرل راحیل اور ان کی فوج نے حاصل کر کے دنیا کو حیران اور بھارت کو پریشان کر دیا ہے مگر اس کا کریڈٹ حکومت اور اس کا ڈنکا بجانے والے وزیر شذیر لیتے ہیں۔ خواجہ آصف کا دل کرتا ہے تو فوج کے خلاف بولتا ہے پھر معافیاں مانگتا ہے۔ بعد میں اسے وزیر دفاع بنا دیا جاتا ہے مگر بے چارے مشاہداللہ خان سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے جبکہ دونوں کا کام ایک ہی ہے۔
کئی برسوں کے بعد قومی پریڈ یوم پاکستان پر ہوئی تو پہلی صف میں صدر ممنون اور وزیراعظم نواز شریف تھے اور یہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف دوسری میں پانچویں نمبر پر کھڑے تھے۔ خواجہ آصف بھی ساتھ کھڑے تھے۔ پھر بھی سیاستدانوں کو جنرل راحیل شریف پر اعتماد نہیں کہ وہ جمہوریت کے پاسبان ہیں۔ وہی جمہوریت کے حامی ہیں۔
یوم آزادی پر لوگ صرف جنرل راحیل شریف کا استقبال کر رہے تھے۔ ان سے مل رہے تھے وہی توجہ کا مرکز تھے۔ وہ لوگوں کے محبوب ہیں۔ انہوں نے اس محبوبیت کے لیے پروپیگنڈہ یا سیاست نہیں کی۔ انہوں نے صرف کام کیا اور قربانی دی ہے۔ اپنے شہید خاندان کی لاج رکھی ہے۔
سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی ملک بہترین فوج کے بغیر باقی نہیں رہتا۔ ملک نہ ہو گا تو کوئی حکمران کیسے بنے گا۔ بالخصوص میں بہت محبت سے نواز شریف سے گذارش کروں گا کہ فوج کے ساتھ سیاست نہ کریں۔ فوج کے ساتھ محبت کریں۔ چودھری نثار انہیں سمجھائیں۔ جو کام خود کر دیا ہے خود ہی اس کا تدارک بھی کریں۔ سیاستدانو! جنرل راحیل شریف کی قدر کرو۔ یہ پاکستان کا سب سے خوش نصیب جرنیل ہے۔ کوئی دوسرا جرنیل ان کے مقابلے میں سیاستدانوں کو ذلیل و خوار کرے گا۔ جنرل ظہیر تو چلا گیا ہے۔ اب سارا ڈرامہ کس کے لئے ہے؟ کبھی کسی آئی ایس آئی چیف نے تو مارشل لا نہیں لگایا۔ جنرل راحیل دلیر آدمی ہے بزدلانہ سیاست کسی کام نہیں آئے گی۔