جذبہ اور جنون، افلاس و افلاطون

کبھی میں بھی بادشاہوں، حکمرانوں اور بڑے آدمیوں کی آب بیتی بڑے شوق و انہماک سے پڑھتا تھا، مگر معلوم یہ ہوا کہ ان کی خود نوشتہ داستانِ زیست، خود پسندی کی قرطاس ابیض ہے، جو عوام کو رعایا سمجھ کر لکھی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ متکبر اتنے کم حوصلہ بلکہ کم ظرف انسان ہوتے ہیں کہ خود کو اخلاق، قانون و ضوابط سے مبرا سمجھتے ہیں۔ جبکہ انکے محکوموں کو اطلاق اصول کا پابند بنا کر کسی دانستہ یا نادانستہ غلطی کی گنجائش سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہم، بدگمانی، توہم، شک اور شبہ ان میں بری طرح رگ و ریشے میں سرایت کر گیا ہوتا ہے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ انکے خالق کی مرضی کے بغیر درختوں کا نہ تو پتہ ہلتا ہے نہ گرتا ہے۔ توکل سے محروم انسان حکمران تو بن جاتے ہیں مگر توفیق خیر سے محروم کر دئیے جاتے ہیں جبکہ حکم خداوندی تو حقوق انساں کی اس قدر اہمیت جتاتا ہے کہ گو ایک انسان کا معاشی و جسمانی قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر وارثین معاملہ خدا پہ چھوڑ کر قاتل کو معاف کر دیں تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے۔ کسی کو معاف نہ کرنیوالا خود خدا سے معافی کی کیسے امید لگا سکتا ہے۔ تیمور نے کھوپڑیوں کے مینار کیوں بنائے تھے؟ اس لئے کہ اس کو سچ سننے کا حوصلہ نہ تھا مگر وہ دانشوروں، علماءاور تاجروں کو ملک فتح کرنے کے بعد اور خون کی ندیاں بہانے سے پہلے الگ کر دیتا تھا۔ کھوپڑیوں کے مینار تو ظہیرالدین بابر نے بھی بنائے تھے، تزک بابری میں بابر لکھتا ہے کہ میرے ایک مصاحب، نے جلد بازی کی۔ ایک جگہ پچاس پٹھان اکٹھے کھڑے دیکھ کر ان پر چڑھ دوڑا۔ انہوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ ہم نے اس کا سخت انتقام لیا اور ان پٹھانوں کو گھیرے میں لیکر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور انکے سر کٹوا کر ان کا مینار چنا۔ حیرت ہے کہ لوگوں کے سر کٹوانے والے کی جب اولاد کا معاملہ آیا تو وہ اپنے بیٹے ہمایوں کے گرد پھیرے لگا کر اسکی جگہ قربان ہو گیا۔تاریخ اور دور جدید ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ تکبر صرف اور صرف خدا کو سزاوار ہے جبکہ عاجزی، انکساری اور عفو و درگزر اور فقیرانہ گزر و بسر کی آپ نے انتہا کر دی۔ اسکی تشریح شیخ سعدی نے یوں کی ہے کہ بھوک اور مسکینی میں دن گزارنا کسی کمینے کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے بہتر ہے کیونکہ کم ظرف، وہم و بدگمانی کاشکار ہوتا ہے، اور ذہنی بیمار کا علاج بقراط کے شاگرد اور ارسطو جیسے دنیا کے نامور حکیم افلاطون کے پاس بھی نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہومیوپیتھک شاید اس وقت وجود میں نہیں آئی ہو گی، کیونکہ اس میں تیربہدف علاج موجود ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے امیر تیمور ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ اس نے ہندوستان پہ دھاوا بولنے کی ابتدا پشاور سے کی اور اس نے پٹھان اور افغان کا بھرپور انداز میں فرق واضح کیا۔ اس وقت بھی پشاور افغانستان کا حصہ نہیں تھا لہٰذا محمود اچکزئی، اچک زئی نہ بنیں۔ محمود غزنوی، سکندراعظم، ڈیمی گروس، محمد غوری، ظہیرالدین بابر وغیرہ نے بھی اس وقت خراسان موجودہ نام افغانستان سے براستہ پشاور حملہ کیا۔ مختصر یہ کہ تزک بابری کے تقریباً آدھے صفحات میں یہ ذکر موجود ہے کہ میں نے آج ظہر سے عشا تک اپنے مصاحب کے ساتھ شراب نوشی کی بلکہ کیﺅں کو مجبور کیا، جس شہر پر حملہ آور ہوتا اسے شراب کے مٹکے پیش کئے جاتے۔ دلچسپ بات یہ ہے بابر اگر روزہ رکھتا تو افطار کے بعد بھی شغل جاری رکھتا۔ ایک دفعہ کہیں امام کے گھر گیا اور اپنے شوق پورا کرنے کا اظہار کیا۔ مگر اس مرد مومن نے اسے اجازت نہ دی۔ اسے ایک دن خیال آیا کہ کیوں نہ شراب سے توبہ کر لوں۔ میں نے ضمیر کو آواز دی۔ شراب کے نقری اور طلائی پیمانے، صراحیاں توڑ دیں۔ جتنی شراب چھاﺅنی میں موجود تھی پھنکوا دی اور جو چاندی سونا ان میں تھا فقراءمیں تقسیم کر دیا۔ میری توبہ سن کر تین سو ساتھیوں نے بھی توبہ کر لی۔ اور محصول سے معافی کا بھی اعلان کر دیا۔ بابر نے کشمیر کا بھی خوبصورت انداز میں ذکر کیا۔ سبق آمیز بات یہ ہے کہ بابر اور اس کے باپ کی حکمرانی چھوٹے سے علاقے جو ہماری ایک تحصیل جتنی تھی مگر جذبے کو جنون بنا کر وہ ہندوستان کا فاتح بن بیٹھا۔ ایسا جذبہ ایسا جنون اب کشمیر کے بچوں میں ہے۔ مگر افسوس کہ غربت اور افلاس فتح یابی میں آڑے آ رہی ہے۔ کرفیو کے دوران ضروریات زندگی کی فراہمی کی نایابی کی کمزوری سے بھارتی فوج کو مظالم جاری رکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ غربت، بنگلہ دیشیوں کو بیرون ملک اپنی بیویوں بیٹیوں کو خادمائیں بنا دیتی ہے۔ غربت نیپالیوں کو افغانستان میں سکیورٹی گارڈ بنوا کر طالبان سے گولی مروا دیتی ہے۔ غربت برما کے باسیوں کو دربدر کرا دیتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن