2018ءکے الیکشن میں ایم ایم کے اکثر بڑے حضرات قومی اسمبلی تک نہ پہنچ سکے تو ان کے صدر مولانا فضل الرحمن زیادہ غصہ ہوئے۔ سراج الحق صاحب بھی بہت حیران ہوئے‘ اویس نورانی بھی انتہائی پریشان رہے۔ اسی طرح جناب ساجد نقوی اورایم ایم اے کے اکثر حامی کافی مایوس ہوئے‘ یہاں تک کہ ان کے صدر نے الیکشن نتائج کو مسترد کردیا اور شروع میں خود بھی حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا دیگر اتحادیوں کوبھی یہی مشورہ دیا مگر ا نہوں نے اس تجویز کو ماننے سے معذرت کی حالانکہ (ن) لیگ آدھی قومی سیٹوں سے محروم ہوئی۔ یہ وفاق میں بھی اپوزیشن میں نظر آتی ہے اورپنجاب کی صوبائی حکومت بھی ان کے ہاتھ نکل رہی ہے۔ ان کے کئی سینئررہنما اسیر ہیں اورسابق وزیراعظم شاہد خاقان تک آئوٹ ہوئے‘ لیکن (ن) لیگ والے نہ اتنا غصہ ہوئے اور نہ ہی حلف اٹھانے سے انکار کیا البتہ پارلیمنٹ کے اندر باہر احتجاج کا اعلان کیا۔ اس بار دراصل ایم ایم اے کا گمان تھا کہ 2002ء کی طرح وہ کے پی کے یا بلوچستان میں حکومت بنائے گی اور وفاق میں زیادہ نشستیں جیت جائے گی۔ 2002ء میں وہ 54 قومی سیٹوں پرجلوہ افروز تھی ‘ کے پی کے اور بلوچستان میں ان کا راج تھا‘ پھر ان کی آپس کی راہیں جدا ہوگئیں اور حالیہ الیکشن میں دوبارہ بحال ہوگئیں تو انہیں صرف 13 قومی سیٹیں ملیں اور کل 20 صوبائی نشستوں پر جیت سکی۔
اب اگر دیکھا جائے تو ان کے بڑے اچھے مہذب لوگ ہیں‘ ان کا بھی ماضی پاک ہے‘ ان کے دامن پر کرپشن کا داغ نہیں ہے‘ یہ مشرقی روایات پر بھی پورا اترتے ہیں اور صورت و لباس بھی ان کے سادہ اسلامی ہیں ‘ مسلکی اختلافات کو بھی پس پشت ڈال دیا اور آپس میں کندھے سے کندھے بھی ملا دئیے مگر سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ اپنی مقبولیت مزید کیوں نہ بڑھاسکی‘ یہ شہروں میں بھی زندہ تابندہ آباد کیوں نہ رہی۔ اسے رول ماڈل کے طور پر لوگوں نے ترجیح کیوں نہیں دی اکثر نوجوانوں میں پسندیدہ کیوں نہ رہی اور ایک ہی صوبے میں حکومت کیسے نہ بنا سکی۔ اس میں کچھ میڈیا اور چند قوتوں کا کردار ضرور ہوگا مگر اس کے علاوہ اوربھی بہت اسباب ہیں ان میں سے ایک تو ان کے نظرئیے سے اکثریت واقف نہیں ہے‘ ان کی نظریاتی سیاست واضح نہیں ہے۔ یہ ایک نظرئیے پرزیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ اسی ایم ایم اے کی جمعیت (ف) پچھلی دور حکومت میں حزب اقتدار کے ساتھ متفق تھی جبکہ جماعت اسلامی حزب اختلاف پی ٹی آئی کے ساتھ گھومتی رہی۔ ایک (ن) لیگ سے اختلاف رکھتی تھی جبکہ دوسری پی ٹی آئی کی مخالف تھی پھر عین الیکشن کے وقت یہ مذہبی جماعتیں متحد ہوگئیں تو اسکے بعد انہیں پچھلے دور حکومت کے اپنے اتحادیوں میں خامیاں نظر آئیں وہ انہیں سیکولر پارٹیاں کہتی رہیں‘ انہیں کرپٹ قراردیتی رہیں اور ختم نبوت مسئلے کا ذمہ دار کہتی رہیں تو پھر جس دن الیکشن ہواتو یہ اتحادی انہی کے در پر حاضر ہوئے جنہیں وہ سیکولر جماعت کہتی رہیں ایک بار پھر مذہبی سے صرف جمہوری سیاست شروع کرنے لگیں۔
اسی طرح جتنا یہ خود کو نظریاتی مذہبی پارٹی کہلاتی ہیں‘ اتنا ہی اندرسے یہ قوم پرست ہیں اور سرمایہ دار کی خاطر رکھنے والے ہیں۔ اس لئے کہ اکثر جگہ انہوں نے سرمایہ دار اور مخالف پارٹی کے امیدوار ہی کی قوم سے اپنا امیدوار کھڑا کردئیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں انہوں نے مار کھائی ہے‘ اس میں عوام کی طرف خاطر خواہ بے رخی بھی شامل ہے۔ یہ حضرات عوام کے درمیان سے زیادہ اپنے دیگر اتحادیوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ یہ اکثر نوجوانوں اورعام لوگوں سے دوررہتے ہیں۔ بڑے بزنس مینوںسے تعلقات کم رکھتے ہیں‘ عوام کے نجی مسائل پر قابل قدر توجہ نہیں دیتے ہیں۔یہ اسکولز اور کالجز میں نظر نہیں آتے ہیں۔ اس لئے یہ پرانے پکے حامیوں کے سوا مزید لوگوں کو اپنی طرف نہ کھینچ پائے اور اکثرنشستیں مروت‘ ٹانک‘ قبائلی علاقے اور کوئٹہ کے ارد گرد پختون حلقوں سے جیت گئے۔ جہاں کے نوجوان آبائو اجداد کی رائے کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کا ووٹ خاندانی سطح پر ہے‘ ساتھ ہی وہ کچھ مذہبی بھی ہیں ا ور جلد ہی وفاداری نہیں بدلتے ہیں اور خاص طورپر ا بھی تک وہاں دیگر پارٹیوں کی توجہ اور کرداربھی کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مذہبی پارٹیوں میں خوداعتمادی اورواضح بیانئیے کا فقدان ہے۔ آپ سوچئے میاں صاحب نا اہلی کے بعد آخر تک ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ پر قائم رہے۔ عمران خان تیرہ سال صرف ایک نشست پر بیٹھے رہے مگرکرپشن کے خلاف آخرتک بولتے رہے‘ حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے کرپٹ چہروں کے درمیان بھی اسی موقف پر ڈٹے رہے۔ پیپلزپارٹی کے سابق صدر ٹین پرسنٹ سے مشہور ہوئے مگر انکے نئے چیئرمین پھر بھی عوام کے مسائل اور غریبوں کے متعلق بیانات دیتے ہیں لیکن ایم ایم اے والے کبھی مذہبی نظریہ پیش کرتے ہیں تو کہیں فلاحی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں‘ یہ کہیں سیکولر اور قوم پرست جماعتوں کی مخالفت کرتے ہیں تو کہیں عملی طورپر خود اس کا نمونہ بنتے ہیں۔ اسلامی فلاحی سیاست ممکن ضرور ہے‘ مگر جہاں وہ سیکولر جماعت کی مذہبی حوالے سے مخالفت کرتے ہیں ا ور پھر ان کے اتحادی بنتے ہیں تو لوگ ان سے تھوڑا بہت کتراتے ہیں‘ وہ ان کے متعلق متذبذب ہوجاتے ہیں۔
لہذا جب تک یہ مذہبی جماعتیں عوام کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیں یہ اسکول‘ کالجز اور ہسپتالوں کی طرف توجہ نہ دیں یہ غریب کارڈ یا صحت کارڈ جیسے فلاحی کام شروع نہ کرلیں یہ خود داری اور نظرئیے پرمتترلزل نہ رہیں یہ غریبوں کی پرسان حال ا وران کی تعلیم کاا پنے حلقے میں صحیح خبر نہ لیں تو ان کاگراف مزید گرتا چلا جائے گا۔ یہ تیرہ سے چھ قومی سیٹوں پرآجائے گی‘ لوگ پھران کے پیچھے نماز تو پڑھیں گے ان کے مذہبی خطبات تو سنیں گے‘ ان کی علم کی قدرکریں گے مگر ووٹ کبھی نہیں دیں گے‘ ان کی پارلیمنٹ میں ہمیشہ ضرورت پڑتی ہے‘ ان کا پارلیمنٹ میں ہونا ناگزیر ہے‘ لہٰذا وہ عوامی مسائل اور خدمت پرزوردیں۔