تحریک انصاف کے شدید ترین حامیوں کو بھی اعتبار نہیں آرہا کہ ان کی جماعت نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14نشستیں بآسانی جیت لی ہیں۔ اس جماعت کے عمران اسماعیل جیسے مقامی رہ نما اس حقیقت کے باوجود ”فاتحینِ کراچی“ کی مانند عمل کرنا شروع ہوگئے ہیں اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے چند ایم پی ایز اس شہر کی سڑکوں پر اس انداز میں دندناشروع ہوگئے ہیں جو کئی برسوں تک ”بھائی“ کی بنائی ایم کیو ایم کے لئے مختص سمجھا جاتا تھا۔
کراچی شہر کی سیاست پر 70کی دہائی سے گہری نگاہ رکھنے کے سبب میں اس کی Dynamicsمناسب حد تک سمجھتا ہوں۔ جو واجبی سا علم میرے پاس ہے اس کی روشنی میں تحریک انصاف کے کراچی سے ابھرے دوستوں کے رویے کا جائزہ لیتا ہوں تو اندیشہ ہائے دورودراز ذہن پر چھانا شروع ہوجاتے ہیں۔
شہر کراچی میں اپنی کامیابی پر ضرورت سے زیادہ شاداں تحریک انصاف کے عمران اسماعیل جیسے متوالوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ 25جولائی 2018کے دن پاکستان بھر میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 55فیصد رہا۔ کراچی شہر میں یہ تناسب 23فیصد تک ہی محدود رہا۔ مختصراََ 100میں سے 77 ووٹر گھروں میں بیٹھے رہے۔ کسی ایک جماعت کو بھی ووٹ دینے نہیں گئے۔ شہریوں کی اتنی بڑی تعداد کی انتخابی عمل سے عدم دلچسپی تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لئے باعثِ پریشانی ہونا چاہیے تھی۔ اس جانب مگر ان میں سے سے کوئی ایک بھی توجہ دینے کو تیار نظر نہیں آرہی۔
کئی برسوں سے لندن میں مقیم ہوئے ”بھائی“ کے چندچاہنے والوں نے سرگوشیوں میں یہ دعویٰ کیا کہ 23فی صد کا تناسب موصوف کی وجہ سے دیکھنے میں نظر آیا۔ میں اس دعویٰ کو ٹھوس بنیادوں پر تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ انتخابی نتائج پر رواں تبصرہ کرنے کے لئے مجھے یوم انتخاب سے پہلے اور بعد کے چند ایام کراچی قیام کا موقع ملا تھا۔ میرا زیادہ وقت ٹی وی سٹوڈیوز میں موجود رہنے میں صرف ہوا۔شدید تھکن اور نیند کی بے تحاشہ کمی کے باوجود مگر جب بھی موقعہ ملا میں نے کراچی کے ان علاقوں میں جانے کی کوشش کی جو میری دانست میں اس شہر کی ”نبض“ ہیں۔ وہاں کے چائے خانوں اور نہاری کی دکانوں میں بیٹھ کر نبض کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔ انتخابی عمل سے قطعی عدم دلچسپی ماحول پر چھائی نظر آئی۔
انتخابی عمل کی تکمیل کے فوری بعد پاک سرزمین کے مصطفےٰ کمال اسلام آباد آئے تھے۔ انہوں نے اسی جہاز میں سفر کیا جو مجھے بھی اسلام آباد آنے کے لئے نصیب ہوا تھا۔ ائیرپورٹ کی انتظار گاہ میں میرے کئی ساتھیوں نے انہیں دیکھ کر گفتگو میں مصروف رکھا۔ موصوف سے لیکن میں دور ہی رہا۔
اسلام آباد آنے کے بعد مصطفےٰ کمال نے اپوزیشن جماعتوں کے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ انتخابات میں شدید دھاندلی کے الزامات لگائے۔ میرے بھائی سلیم صافی کو ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ”لوگوں کے نام لے کر“ سب کچھ بتا دینے کی بڑھک بھی لگائی۔ کراچی لوٹ جانے کے بعد سے لیکن انہیں چپ لگ چکی ہے۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری گواہی دیں گے کہ آج سے چند برس قبل جب مصطفےٰ کمال ایک ”ہیرو“ کی مانند ابھرے یا ابھارے گئے تھے تو میں نے ان کی بنائی جماعت کو ”کمال کی ہٹی“ کا نام دیا تھا۔ میرا دعویٰ تھا کہ ڈیفنس کے ایک بنگلے میں قائم ہوئی یہ جماعت جس کی پریس کانفرنس کو ٹی وی چینل اپنے ریگولر پروگرام کٹ کرکے Liveدکھارہے ہیں گولیمار اور لالوکھیت کے مکینوں کو اپنی جانب راغب نہیں کر پائے گی۔ ربّ کا سو بار شکر کہ 25جولائی 2018کے دن میں درست ثابت ہوا۔
کراچی کا چڑیا گھر جسے آج کے بچے Zooکہتے ہیں 70کی دہائی تک ”گاندھی گارڈن“ کہلاتا تھا۔ وہاں سے آپ سمندر کی جانب سفر کریں تو شومارکیٹ اور رنچھوڑ لین غیرہ آتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے سالوں میں بہت تیزی سے خشک ہوتی لیاری ندی کے کنارے پر آباد یہاں کئی علاقے جو دھوبی گھاٹ سے قبرستان میوہ شاہ تک جاتے ہیں جھگیوں اور کچے مکانوں پر مشتمل تھے۔ غریب ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی آبادیاں۔ ان ہی علاقوں میں بعدازاں پنجاب سے مزدور اور ہنرمند اجرتی کارکنوں نے رہائش اختیار کرنا شروع کی۔ 1960کے آغاز میں پشتون مزدورسمندری لہروں کی صورت لیاری ندی کے اس پار موجود شیرشاہ میں رہنا شروع ہوگئے۔
وسیع وعریض رقبے پر پھیلا یہ علاقہ جو گنجان آباد ہے کئی حوالوں سے اصل ”منی پاکستان“ ہے۔ ایم کیو ایم نے اس پر خاص توجہ دی تھی۔ آبادی کے تناسب والی حقیقت کو مگر سمجھ نہ پائی۔ اس کے مخالف نسل،لسانی یا مسلکی بنیادوں پر 1990کی دہائی سے اس کی مزاحمت کو تیار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ جنرل مشرف کے دورنے مگر ایم کیو ایم کو حیاتِ نو بخشی اور وہ 2013تک خود کو پورے کراچی کی ”واحد نمائندہ جماعت“ کی صورت پیش کرنے میں کامیاب رہی۔
مشرف کے رخصت ہوجانے کے بعد سے اس جماعت کا زوال شروع ہوگیا تھا۔آصف علی زرداری مگر ماضی کے تجربات کی وجہ سے اس جماعت سے خائف رہے۔ اس کے نازنخرے برداشت کرتے رہے۔ آصف علی زرداری کے اس رویے نے ایم کیو ایم کے مخالفین کو اداس وپریشان کیا۔ عمران خان ان کی امیدوں کا مرکز بن گئے۔
خان صاحب اور ان کی جماعت نے لیکن اپنے بے ساختہ اور قدرتی اتحادیوں کو منظم کرنے پر بھرپور توجہ نہیں دی۔ مصطفےٰ کمال نے اس خلاءکو پرکرنا چاہا مگر اس کی ”لانڈری“ میں اکثر وہ ”لونڈے“ آئے جو دوکانداروں کو پرچیاں دے کر بھتہ وصول کیا کرتے تھے۔
قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں نے قناتیں لگاکر پولنگ آفس بنارکھے تھے مجھے ایک گھنٹہ گزارنے کا موقعہ ملا۔فٹ پاتھ پر رکھے بنچ پر بیٹھ کر چائے پیتا اور مشاہدہ کرتا رہا۔میرے بائیں ہاتھ ایک شخص سگریٹ پان کا کھوکھا لگائے بیٹھا تھا۔ اس نے مصطفےٰ کمال کی جماعت سے نامزد ہوئے پولنگ آفس میں بیٹھے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ ایم کیو ایم کی جانب سے بھتے کی پرچیاں بانٹاکرتا تھا۔”اب ووٹ کی پرچی کاٹ رہا ہے“۔ میں فوراََ سمجھ گیا اور اس حلقے میں متوقع انتخابی نتیجے کو بھی اس کا اعلان ہونے سے قبل جان گیا۔
کالم کتاب نہیں ہوتا۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ میں فی الوقت ”کمال کی ہٹی“ کے بارے میں ایک جھلک کا تذکرہ ہی کرسکتا تھا۔ آپ سے وعدہ ہے کہ وقتاََ فوقتاََ کراچی کے حوالے سے دوسری جماعتوں کے بارے میں بھی لکھتا رہوں گا۔ فی الحال تحریک انصاف سے ہاتھ باندھ کر درخواست فقط یہ کرنا ہے کہ خود کو ”فاتح کراچی“ تصور نہ کریں۔ گوہر ایوب خان نے 1964میں اپنے والد فیلڈ مارشل ایو ب خان کے ہاتھوں مادرِ ملت کی شکست کا اعلان ہوجانے کے بعد کچھ ایسا ہی تصور کیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
٭٭٭٭٭