لاہور لاہور ہے ۔ یہ احمد ندیم قاسمی کا لاہور ہے جو عنوان میں دئیے گئے الفاظ پر مشتمل کالم لکھا کرتے تھے۔ 1965ءکی جنگ کے شروع میں ہی لاہور کے شہریوں کو آزمائش پیش آ گئی۔ ہمارے بہادر جوانوں نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر مادر وطن حفاظت کی۔ سنتے ہیں تاریخ میں پڑھتے ہیں، کہانیوں میں بیان ہوتا ہے کہ انار کلی قلعے کی کسی دیوار میں چن دی گئی تھی۔ انار کلی مظلومیت کی علامت اور عنوان ہے۔ 1965ءکی جنگ کے دوران رئیس امروہوی نے نغمہ لکھا تھا۔ خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام.... انہوں نے لاہور کو سٹالن گراڈ قرار دیا۔ ”تو ہے اسٹالن گراڈ اس سرزمین پاک کا ....لاہور مولانا مودودی کا شہر ہے، ہم نے اس صدی کے بہت بڑے عالم دین سے اچھرہ میں شرف ملاقات حاصل کیا تھا یہاں علامہ اقبال مقیم رہے۔ فیض احمد فیض مقیم رہے۔ یہ شورش کاشمیری کا شہر ہے یہ ملکہ ترنم نورجہاں کا شہر ہے۔ حبیب جالب کا شہر ہے۔ حمید نظامی مرحوم اور مجید نظامی مرحوم کا شہر ہے۔ ان قابل احترام ہستیوں کے پاکستان پر لا تعداد احسانات ہیں۔ لاہور ادب شاعری، ثقافت، تہذیب کا مرکز ہے۔ لاہور میں ہی پاکستان کے حق میں قرارداد پیش ہوئی دور اندیش قائد کو علم تھا لاہور ہی برصغیر کے مسلمانوں کا سیاسی مرکز اور محور بھی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں 1968ءتک لاہور زیادہ سرگرم نہیں تھا۔ پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں جمہوریت کا نعرہ لگا کر عوام کے شعور کو آواز دی۔ لاہور نے دل وجان سے بھٹو کو لبیک کہا۔
بے نظیر ابھی آصف زرداری کی منکوحہ نہیں بنی تھیں جب اپریل 1986ءمیں وہ لاہور آئیں۔ شہزادی بے نظیر کا اہلیان لاہور نے دل و جان سے استقبال کیا ایسا استقبال چشم فلک نے کم ہی دیکھا۔ یہ درست ہے کہ آمر ضیاءالحق نے کوئی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی تھیں۔ مریم نواز، بے نظیر ہیں یا انارکلی ہیں خیر مگر دختر لاہور تو ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قوم کی بیٹی قید و بند اور صعوبتوںکی زندگی گزار رہی ہے تو یہ خوشی کی بات نہیں، صدمے اور دکھ کی بات ہے۔اہم بات یہ ہے کہ سیاسی طور پر ایک بار پھر لاہور نے اسٹالن گراڈ اور ”ویٹ نام“ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کو لاہور میں شکست دی ہے۔ نوازشریف کے گھر کی سیٹ بھی محفوظ رہی ہے اور یہاں ڈاکٹر یاسمین راشد نے شکست کھائی ہے۔ کامیابی کے دعوﺅں کے باوجود! البتہ تاریخ کے ڈرامے کا پردہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ممکنہ وزیراعظم کی اہلیہ اور ممکنہ خاتون اول بشریٰ بی بی نے قوم کے نام پیغام جاری کیا ہے۔ سب سے خوشگوار اور دلچسپ ٹوئٹ پیغام جمائما کا ہے۔ عائشہ گلا لئی کو بڑی اور بری شکست ہوئی ہے۔ کیا اب وہ عمران خان کو ٹوئٹ کریں گی شاید یہ شعر لکھ دیں ....
ہے نہ سہی کچھ مگر اتنا کیا کرتے تھے
تم مجھے دیکھ کر پہچان لیا کرتے تھے
ہمارے محترم بھائی سعد رفیق کا غصہ کم نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی سیٹ کیلئے Ro کو درخواست دی ہے۔ دھاندلی ہوئی ہے۔ سعد رفیق مزاجاً بھی لاہوری ہیں۔ لاہوری ہونے کے ناطے اُن میں برداشت کم ہے۔ یوں بھی اُنہیں معمولی ووٹوں سے ”ہرایا“ گیا ہے۔ صرف 680 ووٹ۔ یہ تو پھر managed ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پری پول رگنگ کی شکایت بڑی حد تک درست ہے۔لاہوری کم ہی ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں اور ایسا ہوا بھی ہے۔ اس سے آگے لکھنے کی نہ ہم میں تاب ہے نہ مجال۔ہماری عاجزانہ رائے میں پولنگ ڈے پرکوئی رگنگ نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہوئی ہے تو پولنگ کے بعد ہوئی ہے اور وہ بھی مخصوص نشستوں پر‘ نہ صرف انجینئرڈ بلکہ Engineered Well ....جان بوجھ کر نتیجہ بتانے کی رفتار کو پہلے سُست کیا گیا ہے۔ گو یہ عُذرِ لنگ ہے کہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS) خراب ہو گیا تھا۔ مگر کیوں؟ خرابی کی ذمے داری کیا سیکرٹری الیکشن کمشن تسلیم کرتے ہیں؟ تو مستعفی کیوں نہیں ہوتے....بھٹو دور میں دھاندلی کے الزامات لگے تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد مستعفی ہو گئے تھے۔مگر دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ نادرہ نے RTS میں خرابی کا دعویٰ ہی مسترد کر دیا ہے۔
کسی کی ہار پر خوشی کا اظہار مناسب نہیں ہے.... ہمیں دُکھ ہے کہ ہمارے ہیرو چودھری نثار علی خان الیکشن ہار گئے ہیں۔ دو قومی کی اور ایک صوبائی کی سیٹ وہ صرف ایک صوبائی کی سیٹ پرکامیابی حاصل کر سکے ہیں۔ ”جیپ“ چودھری صاحب کے کام نہ آئی ا’نکی ”میڈم“ مریم نواز قید میں ہیں۔ چودھری صاحب نے جو کرنا تھا وہ کر لیا، چودھری صاحب نے بھی صِلہ پا لیا۔
نواز شریف کی ہار کا سبب یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں میں اُن کا سیاسی کام زیرو تھا....پنجاب میں شکست نہیں ہوئی ہے مگر KPK اور سندھ میں عمران خان کی کامیابی نے تحریکِ انصاف کا بول بالا کر دیا ہے۔ گنتی کے توازن اور تناسب میں یہی فرق ہے۔ ہم چودھری نثار کی شکست سے ہرگز خوش نہیں ہیں۔ ایک بار اُن کے ترجمان ہم پر بھی برسے تھے۔ چودھری صاحب کی خدمت میں، عاجزانہ، مخلصانہ یہ شعر ....
اِسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کاررواں ہو کر