جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی

2002ءکے انتخابات کے بعد صوبہ خیبر پی کے (اس وقت صوبہ سرحد) میں متحدہ مجلس عمل اپنی واضح اکثریت کی بدولت صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اس صوبائی حکومت میں وزیرخزانہ تھے۔ ایک روز وہ نماز فجر کے بعد اپنے گھر میں موجود تھے کہ پورا علاقہ زوردار دھماکے سے لرز اٹھا۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ سراج الحق اپنے گھر سے باہر نکلے، ایک جان پہچان والے شخص سے ویسپا لیا اور دھماکے کا سراغ لگانے پہنچ گئے۔ انہیں چند لمحوں بعد ہی علم ہو گیا کہ ایک دینی مدرسے پر امریکہ نے ڈرون داغا ہے۔ باریش سراج الحق آنسو¶ں میں تر اس مدرسے میں پہنچے جہاں بچوں کی نعشیں بکھری پڑی تھیں۔ سراج الحق اس واقعہ پر سراپا ماتم بن گئے اور انہوں نے سراپا احتجاج بنتے ہوئے متحدہ مجلس عمل سے مطالبہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں اس واقعہ کے خلاف آواز بلند کریں۔ انہوںنے خیبر پی کے کی اسمبلی میں اس واقعہ کی مذمت کرنے کا بھی مطالبہ کیا لیکن یہ وہ دور تھا جب مولانا فضل الرحمن پرویزمشرف کو باوردی صدر منتخب کرنے کی قرارداد کی حمایت کر چکے تھے۔ قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی تھے اور وہ مولانا فضل الرحمن کے اس کردار پر انتہائی غم زدہ تھے۔ سراج الحق کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں نہ گونج سکی۔ قومی اسمبلی میں ان کے مطالبے کو متحدہ مجلس عمل نے پذیرائی نہیں دی چنانچہ سراج الحق صوبہ خیبر پی کے کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے احتجاجاً مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے یہ ساری باتیں فیصل آباد کے اقبال پارک میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بتائی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے مستعفی ہونے کے بعد پرویزمشرف کی آمرانہ حکومت نے ان کا ہر لحاظ سے احتساب کیا۔ ہر اعتبار سے بطور صوبہ خیبر پی کے کے وزیرخزانہ کے ان کے معاملات کی جانچ پڑتال کی لیکن کوئی کرپشن سامنے نہیں آ سکی، صرف ایک نکتہ سامنے آیا کہ وہ صوبے کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے ایک مرتبہ سرکاری گاڑی پر لاہور گئے تھے۔
سراج الحق نے اس خرچے کو بھی اپنی جیب سے قومی خزانے میں جمع کروا دیا تھا۔ سراج الحق کی ان باتوں پر میں نے ایک کالم لکھا تھا جس پر انہوں نے شکریہ کا فون بھی کیا تھا کہ جماعت اسلامی کے اندر انتظامی معاملات انتہائی منظم انداز سے چلائے جاتے ہیں اور کسی نے ان تک یہ کالم پہنچا دیا ہو گا۔ تاہم سراج الحق گزشتہ کچھ عرصے سے جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو چکے ہیں۔ 2013ءکے عام انتخابات کے بعد جماعت اسلامی صوبہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بنی رہی لیکن 2018ءکے عام انتخابات سے پہلے جماعت اسلامی 9مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل میں شامل ہو گئی۔ میں اس وقت سے لے کر آج انتخابی نتائج کے بعد جبکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی منتخب ہو چکے ہیں اور 18اگست کو وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو بھی منتخب کر لیا جائے گا۔ 2013ءکے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے پاس صوبہ کے پی کے میں اتنی نشستیں موجود تھیں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف درست طور پر یہ بات کہتے ہیں کہ انہوں نے کے پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت کرنے کا موقع دیا، اگر جماعت اسلامی 2013ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی نہ بنتی تو شاید کے پی کے میں عمران خان کی جماعت حکومت قائم نہیں کر سکتی تھی لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس کا سہارا لے کر 2013ءسے 2018ءتک تحریک انصاف نے صوبہ کے پی کے میں حکومت کی اور آج 2018ءکے انتخابات کے بعد اسی جماعت اسلامی کا صوبہ کے پی کے میں انتخابی نتائج کے بعد ایسا سیاسی حشر نشر کیوں سامنے آیا ہے؟ اس کی سب سے بنیادی وجہ متحدہ مجلس عمل میں مولانا فضل الرحمن کو اپنا قائد تسلیم کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن زرداری دور اور نوازشریف دور میں متواتر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ لیکن کوئی قابل ذکر کارنامہ نہ انجام دے سکے۔ لہٰذا صوبہ کے پی کے جہاں جماعت اسلامی 2018ءکے انتخابات کے لئے بھی تحریک انصاف کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت تصور کی جا رہی تھی اس کے امیر سراج الحق کی طرف سے متحدہ مجلس عمل میں شمولیت نے جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو متنفر کر دیا اور اس طرح سے مذہبی جماعتوں کا ووٹ صوبہ کے پی کے وہ صوبہ جس کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہاں دیوبندی اور اہلحدیث ووٹ بینک دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے، ختم نبوت کے ایشو پر تحریک لبیک پاکستان نے یہ سارا ووٹ حاصل کیا اور خود مولانا فضل الرحمن کی دو حلقوں سے شکست اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عوام جمعیت کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔
چند ماہ پہلے مجھے خود صوبہ کے پی کے میں جانے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اس صوبے میں دو بڑی سیاسی جماعتیں تھیں لیکن کے پی کے سے کچھ دوستوں نے متحدہ مجلس عمل کے قیام کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ انتخابی نتائج حوصلہ شکن ہونگے۔ وہ اپوزیشن کو بار بار متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری سیاست میں جو مقام مولانا فضل الرحمن کو صوبہ کے پی کے میں حاصل ہے وہی مقام پنجاب میں پیپلزپارٹی کو آصف علی زرداری کی صورت میں حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کے مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو استعمال کر کے اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف آصف علی زرداری کا مطمح نظر بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں۔
ان حالات میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ ہماری قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں کے درمیان احتجاج کی صورت میں دھینگا مشتی کا ماحول تو ضرور گرم رہے گا لیکن افسوس کہ بعض اصحاب نے ہماری دینی سیاسی جماعتوں کو آج 2018ءکے انتخابات کے بعد اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جس کے بارے میں مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی، شاید آج متحدہ اپوزیشن کو متحد کرنے کے پس پشت بھی صرف یہی باقی رہ گئی ہے۔ کاش دینی سیاست کی گئی ہوتی اور نبی آخرالزمان سرور کونین حضرت محمد مصطفیﷺ کے نقش قدم پر چلے ہوتے تو آج جمعیت علماءاسلام(ف) کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتیں اقتدار کے ایوانوں سے اس طرح باہر نہ ہوتیں جس طرح کہ آج ہیں۔ سراج الحق پرویزمشرف دور میں اپنے کئے گئے احتجاج اور تقریر کے بعد 2018ءمیں اپنے اٹھائے گئے سیاسی اقدامات پر نظر ڈالیں انہیں خود سمجھ آ جائے گی کہ ناکامی کی وجہ کیا ہے؟

ای پیپر دی نیشن