اسلام آباد (رپورٹ: شہزاہ نسیم)پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں ہماری قومیت کی پہچان ہیں ، اردو ، پنجابی ، سندھی ، بلوچی اور پشتو ہماری اکائیوں کو ایک لڑی میں پرو کر قومیت کے جھنڈے تلے جمع کرتی ہیں ، انگریزی ہماری زبان نہیں بلکہ ایک مستعار لی ہوئی شے ہے ، جس سے مرعوب ہو کر ہمیں اپنی شناخت پس پشت نہیں ڈالنی چاہیے، انگریزی بولی اور سیکھی ضرور جائے لیکن اسے اپنی علاقائی زبانوں پر مقدم نہیں کر سکتے۔ ان خیالات کا اظہار ایگزیکٹو ڈائریکٹر لوک ورثہ شہیرہ شاہد نے ایک نشست میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ لوک ورثہ دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے چاروں صوبوں کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے اور اس سلسلے میں صوبوں کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں ۔ان سر گرمیوں کے تسلسل میں یوم آزادی پر نمائش اور کتب میلے کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں قیام پاکستان کیلئے اسلاف کی قربانیوں اور ملک میں ہونیوالی ترقی بارے پنسل سکیچز اور تصاویر کے ذریعے عوام کوآگاہی دی گئی انھوں نے زبانوں کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بولی ،لکھی اور پڑھی جانیوالے تمام زبانیں اہمیت کی حامل ہیں خصوصی طور پر پنجابی زبان کا فروغ بھی ناگزیر ہے دیکھنے میں آیا ہے کہاکہ اکثر والدین بچوں کے پنجابی بولنے کو معیوب سمجھتے ہیں جو کہ نہایت افسوسناک رویہ ہے ہمیں اپنے ہاں استعمال ہونیوالی تمام زبانوں کی ترقی اور ترویج کیلئے بھرپور کردار ادا کر نا ہو گا۔ ہمیں باقی زبانوں کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان کے فروغ کے لئے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیز میں ایسی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہئے جن سے خصوصاً پنجابی زبان کو فروغ ملے۔ والدین اپنے بچوں کو انگریزی‘ اردو کے ساتھ ساتھ مادری زبان بھی ضرور سکھائیں کیونکہ یہی ہماری پہچان اور شناخت ہے۔ دنیا میں قوم اپنی زبان و تہذیب سے شناخت کی جاتی ہے لہذا ہمیں احساس کمتری سے باہر نکل کر پاکستانیت اور قومیت کے فروغ میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ نسل نو کی ایسی تربیت کرنا ہو گی کہ وہ اپنی اساس کو زندہ رکھ سکیں اور اسے آگے بڑھا سکیں۔ انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ لوک ورثہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاہم عوامی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کو دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ دینا چاہئے۔