فوٹوسیشن پر مبنی شجرکاری؟

ساون کا ماہ گزر رہا ہے ۔ محکمہ جنگلات کے کیلنڈر میں یہ مون سون کا سیزن ہے جو شجرکاری کے لیے انتہائی موزوں موسم ہے۔ ہر سال آگست کے آتے ہی شجرکاری کے فوٹو سیشن شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر اِس سال شجرکاری کا جنون اور جذبہ معمول سے ہٹ کر ہے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن جوکہ جنگلات کی ایک اہم ترین تنظیم ہے۔ اُس نے اپنی رپورٹGlobal Forest Resources Assessment 2015 میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں جنگلات کو تیزی سے تلف کیا جا رہا ہے اور1990 میں جنگلات کی جو شرح 3.3فیصد تھی وہ 2015میں2.1فیصدہو چکی ہے۔ اِس رپورٹ پر حکومت پاکستان کی بند آنکھوں کو کسی محب وطن ادارے نے کھولا تو وفاقی حکومت کی Council of Common Interestsنے 2017میں نیشنل فارسٹ پالیسی کو ایک نئی شکل دی۔اِس کے تحت گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ اِس منصوبہ کے اخراجات 50فیصد وفاق اور 50فیصد صوبائی حکومتوں نے برداشت کرنے ہیں ۔ابتدائی طور پر وفاقی حکومت نے اِس کے لیے 1285ملین روپے جاری کیے ہیں ۔ اِس رقم سے 13اضلاع کی دس ہزار ایکٹر زمین پر 5.5ملین درخت پانچ سالوں میں لگانے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیاہے جبکہ 22.15ملین درخت کسان پیکج کے تحت کسانوں کو کم قیمت ( کل مالیت کی 30فیصد ادائیگی )پرفروخت کرنے ہیں۔
دُنیا بھر میں جو موسمی تغیروقو ع پذیر ہو رہا ہے وہ ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ترقی یافتہ ، باشعور اورباعلم ممالک گذشتہ کئی سالوں سے اِس تغیر کا سد باب تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔پاکستان میں ہماری حکومتیں پانچ سالہ منصوبہ بھی بنا لیں تو یہ ہمارے ملک کے معروضی حالات کی بناپر کمال کہلا تاہے۔لانگ ٹرم منصوبہ جات کے فقدان کی بناپر ہمارے ملک میں حکومتوں کی نیند اُس وقت کھولتی ہے جب مصیبت سر پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ دیگر صوبوں کی مانند پنجاب میں بھی آج کل شجرکاری کی مہم بہت زور شور سے چلائی جا رہی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اِس مہم کے فوکل پرسن بھی ہیں ۔ تمام کمشنر ، ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر افسران کو ہدایات دی گئی ہیںکہ وہ شجر کاری کو فروغ دیں۔کبھی محکمہ جنگلات والے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے شجرکاری مہم کے لیے فوٹو بنوانے کی منت کیا کرتے تھے آج سول انتظامیہ فارسٹ افسران سے شجرکاری فوٹو سیشن کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کے ہمراہ عا م شہریوں اور سماجی تنظیموں سے بھی گرین پاکستان کے نام پر تعاون طلب کیا جا رہا ہے۔ ہر سال شجرکاری کے فوٹو سیشن کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتے چلے آئے ہیں البتہ اِس سال کچھ زیادہ گونج ہے۔ حقائق کا ادراک کیا جائے تو تلخ حقیقت یہ ہے کہ شجرکاری کے فقط فوٹوسیشن سے کبھی بھی ہم گرین پاکستان نہیں بنا سکتے ۔ حالیہ شجرکاری بھی ماضی کی شجرکاریوں کی طرح ایک دلفریب دھوکہ ہے۔ پاکستان میں نئی شجرکاری کی بے شک بے حد ضرورت ہے مگر اِس شجرکاری سے زیادہ محکمہ جنگلات میں کرپشن ، جھوٹ اور منافق بھرے اقدامات کو درست کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ نجی سطح پر ٹمبر مافیا اور درخت چوروں کو نکیل ڈالنے کی زیاد ہ ضرورت ہے۔ شجرکاری کے بعدلگائے گئے درختوں کی نشوو نما کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ محکمہ جنگلات فائل ورک کی حد تک درخت لگانے کے اعداد وشمار بیان کرتا چلا آرہاہے۔یہ سب کو علم ہے کہ ہرسال درخت لگانے کا ٹارگٹ فائل ورک میں پور ا کر لیا جاتا ہے۔ موسمی تغیر کا مقابلہ فائل ورک سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہے۔ ہمارے قومی جنگلات کی صورت حال عالمی درجہ بندی میں 110پوزیشن پر ہے۔مجموعی طورپر جنگلات پانچ فیصد اور پنجاب میں 6.85فیصد ہیں۔ماہرین کے مطابق درخت توانائی کا بہت اہم ذریعہ ہیں لہذ ااِن کو کاٹنے سے بالکل روکنا ناممکن ہے۔ اِس لیے ہمیں سالانہ 80ملین سے زیادہ درخت لگانے بمعہ نشو و نما کی ضرورت درپیش ہے۔قومی سطح پر 27ہزار ہیکٹرز سالانہ جنگل اُجڑ رہے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں 1967تا 1992تک 52فیصد جنگلا ت میں کمی واقع ہوئی ہے جوکہ ایک بھیانک صورت حال کی پیش گوئی ہے۔ اِس رفتار سے تو پورے پاکستان میں جنگلات آئندہ چند سالوں میں ختم ہو جائیں گے۔ جنوبی پنجاب کے ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں جنگلات بشمول آبپاشی پودوں، بیلہ فارسٹ، رینج لینڈ اور کوہ سلیمان پہاڑی رینج کا کل رقبہ 25لاکھ 3ہزار254ایکٹر ہے۔جبکہ نہروںکے کناروں کے گرد 3169میل اور سٹرکوں کے کناروں کے گرد 1227میل طویل درخت موجود ہیں۔ اِن کی دیکھ بھال اور مذید توسیع وغیرہ کی ذمہ داری ایک کنزرویٹر، 4 ڈویژنل فارسٹ آفیسرز، 5 سب ڈویژنل فارسٹ آفیسرز، ایک سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر توسیع، 14 رینج فارسٹ آفیسرز، 74فارسٹرز اور 330فارسٹ گائیڈ کی ذمہ داری ہے۔فارسٹ سرکل ڈیرہ غازیخان ( چار اضلاع لیہ، مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازیخان اور راجن پور ) کا دعوی ہے کہ اُس نے حالیہ بہار سیزن میں اپنے ٹارگٹ 13لاکھ 40ہزار سے بھی زیادہ 17لاکھ 50ہزار درخت لگائے ہیں جبکہ مون سون کا اُس کا ٹارگٹ 10لاکھ 50ہزار درخت ہیں۔ جس میںسے وہ تاحال ایک لاکھ 67ہزار درخت گذشتہ چند ہفتوںمیں لگا چکا ہے جبکہ اُس کے پاس مون سون کے لیے پودوںکا حاضرسٹاک 32لاکھ 75ہزار موجو دہے۔ یہ اعداد وشمار خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ روایتی فائل ورک ہے جوکہ 1969سے یونہی سرکاری بابو جاری کرتے چلے آرہے ہیں۔ 1886میں حکومت برطانیہ نے فارسٹ سروس کا آغازکیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب1969میں ون یونٹ ختم ہوا تومحکمہ پنجاب فارسٹ سروس بنایا گیا جوکہ فارسٹ ایکٹ 1927حا لیہ ترمیم شدہ 2016کے تحت کام کر رہا ہے۔ اِس محکمہ کے پاس 7531 ملازمین کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے۔ جس کی تنخواہ گذشتہ مالی 2017-18میں2ارب 14کروڑ 54لاکھ 77ہزار ورپے ادا کی گئی ہے۔ جبکہ نان سیلری بجٹ ایک ارب 21کروڑ 33لاکھ 61 ہزار ورپے بھی فراہم کیا گیا تھا۔ سرکاری اہلکار درختوں کی چوری سے جو کمائی کرتے ہیں وہ رقم اِس کے علاوہ ہے۔ اِس قدر خطیر بجٹ گذشہ 49سالوں سے پنجاب میں استعمال ہونے کے باوجود جنگلات ختم ہو رہے ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ ہر سال شجرکاری کے نام پر قوم کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان میں موسمی تبدیلیوں نے ماحولیاتی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمیںاِس فوٹو سیشن والی شجرکاری سے باہر نکل کر عملی طورپر درخت متعلقہ ماحول و زمین کے مطابق نہ صرف لگانے ہوں گے بلکہ اُن کی نشوو نما بھی کرنی ہوگی۔
سائو تھ پنجاب فارسٹ کمپنی بھی سابق حکومت کا اپنے سیاست دانوں کو نوازنے کا ایک ڈرامہ تھا۔ پی سی ہوٹل میں نیلامی کی شعبدہ بازی اور عملی طورپر محکمہ جنگلات کی زمین کا موجودہ عکس قوم کے ساتھ ہونے والے مذاق پر ہنس رہا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی آئندہ حکومت سے قوم کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ عمران خان نے خیبر پختوانخواہ میں بلین ٹری سونامی کا ایک منصوبہ2014میں شروع کیا تھا جس کے فرسٹ فیز پر 1815ملین روپے اور سیکنڈ فیز پر 4000ملین روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ اِس منصوبہ کے تحت ٹارگٹ تھاکہ 60فیصد جنگلات کا قدرتی تحفظ کرتے ہوئے انہیں دوبارہ اُگایا جائے گا جبکہ 40فیصد نئی شجرکاری کی جائے گی۔ اب عمران خان کی مرکزی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔ نئے پاکستا ن میں’’ کرپشن سے پاک پاکستان ‘‘کے نعرہ کے تحت اِس بلین ٹری سونامی کے ٹارگٹ کااحتساب کیا جانا چاہیے نیز اِسی طرح گذشتہ مالی سال 2017-18میں مسلم لیگ نون کی حکومت پنجاب نے محکمہ جنگلات کے لیے Compact plantationکا ٹارگٹ 17167ایکٹر، Linear plantation (AVM)کا ٹارگٹ1206اور potted nursery کاٹارگٹ40.060ملین مقررہ کیا تھا۔ ان تمام ٹارگٹ کا بھی صوبہ پنجاب میں کڑا احتساب ہونا چاہیے تاکہ ہمارے ادارے خود کار طریقے سے اپنے امور سرانجام دینے کے ٹریک پر اب مستقل بنیادوں پر خود ایمانداری سے چل پڑیں۔ ورنہ فوٹو سیشن پر مبنی شجرکاری سے قدرتی آفات اور قدرتی تغیرات کا مقابلہ نا صرف ناممکن ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ ظلم ہے۔

ای پیپر دی نیشن