کچھ قصے شہر ٹورانٹو کے

جب وہاں سلامیوں والا ڈبہ پڑا تھا تو آپ کو کسی اور کے ہاتھ میں لفافہ دینے کی کیا ضرورت تھی جب کہ وہ کوئی اور نہ میں تھی نہ میرا شوہر نہ میرا کو ئی بچہ ۔ روبینہ ! یہ پڑھتے ہی غصے سے میرے ہاتھ پائوں کانپنے لگ گئے میں نے اسی وقت اس کو سو کی بجائے دو سو ڈالرز ای میل ٹرانسفر کئے گو اس کے بعد بیوی سے درگت بنی ، مگر تم دیکھو نا ۔۔ حد ہی نہیں ہو گئی ۔۔۔۔۔
فون پر یہ سب سناتے سناتے بھی ہمارے دوست کے منہ سے جھاگ اڑ رہے ہونگے اور دل کی دھڑکن تیز ہو گی کہ بے عزتی کا احساس ان کے ایک ایک جملے سے عیاں تھا ۔۔۔میں نے ان کے دکھ میں برابر کا شریک ہونے کی کوشش کی مگر میری ہنسی نکل گئی ۔۔ اور یہ کم بخت ویلا کویلا دیکھے بغیر جب ایک دفعہ چھوٹ جائے تو بس رکتی مشکل سے ہے ۔۔ ہمارے لمبے چوڑے دوست کی مسکین سی شکل تصور میں آئے اور ہنسی کی پھواریں نکلتی جائیں ۔۔۔ وہ برہم ہو گئے ۔۔ تم ہنس رہی ہو ۔۔۔ میں نے کہا جی بالکل کیونکہ آپ کا یہ دکھ ایسا ہے جس پر جتنا بھی ہنسا جائے اتنا ہی کم ہے ۔۔۔ اس کے جواب میں کئی اور باتیں ہوئیں لیکن اس سے ذیادہ اہم یہ ہے کہ قارئین اس واقعے کو کیسے لیتے ہیں ۔۔ ہنسی ، دکھ یا مقام ِ ماتم ؟ کیونکہ میرا تو اب یہ حال ہو گیا ہوا ہے کہ غم کی باتوں پر بھی ہنسی آنے لگی ہے ۔
یہ واقعہ ادبی تھا ، دوسرا واقعہ ذرا سیاسی ہے ۔۔۔۔
اس دن سے پہلے مجھے بلاول کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا ۔۔ کسی محفل میں بیٹھے تھے ، اس امید کے ساتھ کے بولنے کا حق سب کا برابر ہو تا ہے ۔ اپنی اپنی رائے رکھنے کا حق بھی انسان کی پیدائش کیساتھ ہی باقی حواس ِ خمسہ کی طرح ساتھ ہی روانہ کیا جاتا ہے ۔۔ لیکن جیسے کچھ انسان پیدائشی معذور بھی ہو سکتے ہیں اسی طرح کچھ گھر ، کچھ معاشرے کچھ شہر کچھ ملک ذہنی معذوری کا شکار ہو تے ہیں اس لئے خود سے سوچنے اور بولنے کا حق ، وہاں پیدا ہونے والے انسانوں کا نصیب نہیں ہو تا ۔خیر ایسی جگہوں پر بھی ہم جیسے بدھو لنگڑا لنگڑا کر چلنے کی کوشش میں بھاگنے والوں سے دھکے کھا کھا کر گرتے سنبھلتے ،اٹھتے رہتے ہیں ۔۔ تو اسی مان سے وہ جو میری ہم ذاد ہے بولی یہ جب بلاول بولتا ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ یا خود کو مار لوں یا اس کے سر پر کچھ دے ماروں ۔ وہاں بیٹھے ، وہاں سے مراد کینڈا جیسے ملک کے اندر ،ایک جوان بولا ۔۔آپ جانتی بھی ہو بلاول کون ہے ؟ جس کا باپ صدر ِ پاکستان رہ چکا ہے ، جس کی ماں وزیر ِ اعظم پاکستان رہ چکی ہے ، جس کا نانا ،صدر اور وزیر ِ اعظم پاکستان رہ چکا ہے جس کا پڑنانا قبل از تقسیم ہندوستان کی کیبنٹ کا وزیر رہ چکا ہے ۔۔اس کی باتوں پر تم لوگوں کو غصہ آتا ہے ، اسے لیڈر بنے تم لوگ نہیں دیکھ سکتے ۔۔ جس کی وارثت میں لیڈری ملی ہے اور اس عمران خان پر پیار آتا ہے ؟ وہ ہے کیا ؟
سیاست اور جمہوریت کی بقا کی اس سے ذیادہ قائل کر دینا والا ایسا زور دار نقطہ میں نے آج تک نہیں سنا تھا ۔۔ میں سہم کر بس خاموش ہو گئی ۔۔ اس بھاری دلیل کے جواب میں میرے پاس سوائے ٹھنڈی آہ کے کچھ نہ تھا ، وہ بھی میں نے کینڈا کی سرد ہواوں کے خوف سے سینے میں ہی دبا لی ۔۔۔آج ایک اور قصہ بہت زور شور سے یاد آرہا ہے ۔شہر ٹورنٹو کی ایک اور حسین و جمیل ، معروف خاتون ، بہت عرصہ منظر سے غائب رہنے کے بعد ایک دن کسی محفل میں مجھے ملیں ، میرے استفسار پر بتانے لگیں کہ میں اس لئے کہیں آتی جاتی نہیں کہ مجھے گلے کا کینسر ہوگیا ہے ،اور ڈائگنوزز میں ہی مصروف تھی تو اب فائنلی پتہ چل گیا ہے کہ مجھے گلے کا سرطان ہے ۔۔ میری نمانی سی روح کانپ اٹھی ۔ میں نے ان کی نشیلی آنکھوں میں غم کی پر چھائیں ڈھونڈتے ہو ئے حیرت سے کہا : ہیں ؟ بولیں: ہاں نا ۔۔ مارے دکھ کے ہیں کے علاوہ میرے منہ سے کچھ نہ نکل پا یا ۔۔۔ بہت راتوں تک میں ان کے لئے بے چین رہی ۔ دعائیں کر تی رہی اور دکھی رہی ۔دن گزرتے گئے پھر ایک جگہ کسی پروگرام میں بہت سرگرم نظر آئیں ۔۔ شائد ہوسٹ تھیں اس بڑے فنکشن کی ۔۔ میں نے دل ہی دل میں ان کی ہمت اور عزم کی داد دی ۔۔ اور موقع ملتے ہی ان سے سے ان کا حال چال پو چھا پہلے تو حیرت سے مجھے دیکھا ۔۔ پھر کہنے لگیں اوہ اچھا وہ کینسر ۔۔ وہ تو کب سے موکل لے گیا ہے ۔۔ میں نے کہا موکل ؟ ۔۔مجھے لگا شائید کیمو تھراپی کا نام موکل رکھا ہوا ہے۔۔ہاں نا وہ میرے پاس آتے ہیں نا ۔۔
موکل یعنی وہ جو جن ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ بولیں ۔۔ ہاں نا ۔۔۔مجھے ان کے موکل پر اعتراض نہیں نہ ان کے ہاتھوں کینسر والی جھوٹی خبر صرف مجھے ہی سنانے پر کیونکہ بعد میں ان کے قریبی لوگوں سے اس کینسر کا حال پوچھنا چاہا تو کسی کو بھی علم نہیں تھا ۔۔ تو اپنے پاگل بنائے جانے پر روئوں یا ہنسوں ؟ مجھے تو آگ لگ گئی ۔۔ آپ ہنستے ہیں یا میرے ساتھ دکھی ہو تے ہیں ؟ آپ پر چھوڑا ۔۔ یہ سب قصے کہانیاں ہمارے ہیں ۔۔ ہم ان کے امین ، ہم ان کے لکھاری ۔۔ آنے والی نسلوں تک اس کا اثر تو جائے گا ہی تو آنے والے کیا لکھیں گے وہ جو ہم سے پہلے تھے ۔۔ وراثت میں ہمیں جھوٹ ، بغض ،تنگ نظری اور غلامانہ سوچ کا تحفہ دے کر گئے ہیں ۔۔ ان کی وراثت کے امین بنیں یا کو ئی نیا راستہ ڈھونڈیں ؟؟ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن