مودی نے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے بھارت کے اُس سیکولر آئین کو ختم کر دیا ہے جو 1950ء میں معماران بھارت نے تحریر کیا تھا۔ بھارت ماتا کی ایکتا کے نعرے لگانے والوں نے جنوری 1948ء میں اس راہ کے ایک بڑے روڑے ’’مہاتما گاندھی‘‘ کو ہٹا دیا لیکن بل کی منظوری پر تبصرہ کرنے سے سردار پٹیل کی آتما کو بڑی ٹھنڈ ملی۔ سردار پٹیل اپنی فطرت میں کٹر ہندو اور اسی باعث تقسیم ہند کا بہت بڑا مخالف تھا۔ سردار پٹیل کو نرگ باشی ہوئے ایک زمانہ بیت گیا لیکن دو قومی نظریہ تسلیم کرنے والی جماعتیں اور اُن کے نیتا سب ناکام ہو گئے۔ کشمیر سے مراد وہ کشمیر ہے جو تقسیم ہند کے وقت مہاراجہ ڈاکٹر ہری سنگھ ڈوگرہ کی حکمرانی میں تھا۔ آزادی کے وقت کئی ایسی ریاستیں تھیں جن کے والی یا فرماں روا رعایا سے مختلف مذہب رکھتے تھے۔ ریاست حیدر آباد دکن تو ایک لحاظ سے نیم خود مختار ملک تھا جس کی اپنی ریلوے اور ڈاک کا اپنا نظام تھا برطانیہ کی حکومت نے اُنہیں ’’یاروفادار‘‘ قرار د ے رکھا تھا لیکن جب یار وفا دار پر مصیبت پڑی تو آنکھیں پھیر لیں۔ ریاست حیدر آباد میں اکثریت ہندوئوں کی تھی جبکہ نظام حیدر آباد عثمان علی خاں مسلمان تھے ، اسی طرح کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور راجہ ہری سنگھ ہندو تھا۔ جب 1848ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ لاہور ہوا تو انگریزوں نے کم سن مہاراجہ دلیپ سنگھ کی حکومت پر 75 لاکھ روپے جنگ کا تاوان ڈال دیا۔ لیکن تخت لاہور کا خزانہ خالی تھا۔ عین اس وقت سکھوں کی طرف سے گورنر راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ آڑے آیا اور اس نے آفر دی کہ تاوان کی رقم میں ادا کر دیتا ہوں عوض میں کشمیر کا قبضہ مجھے دے دیں۔ چنانچہ ایک بنیئے (ایسٹ انڈیا کمپنی) نے دوسرے بنیئے گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ ’’جنت‘‘ بیچ دی۔ جس میں لاکھوں مسلمان بستے تھے، کشمیریوں کا ایسے سودا ہوا جیسے یہ مسلمان بھیڑ بکریاں تھیں۔ کشمیر صدیوں سے مسلمانوں کا ملک تھا۔ جس کے حکمران ہمیشہ مسلمان رہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لشکر کشی کر کے فتح کر لیا اور پھر اُس کے وارثوں نے ڈوگرہ گورنر کے ہاتھ بیچ دیا۔ کشمیر کی تاریخ میں کہیں بھی ہندو وراثت ثابت نہیں ہوتی۔ بدقسمت کشمیری مسلمان 47ء میں ایک بار پھر بیچ دئیے گئے ۔
کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کی شدید مزاحمت کی تو پنڈت نہرو، مسئلے کو سلامتی کونسل لے گئے۔ سلامتی کونسل نے فیصلہ دیا کہ کشمیریوں کو یہ انتخاب کرنے کی اجازت دی جائے کہ وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ شامل ہونا۔ یوں فریقین پاکستان اور بھارت ہی نہیں، پوری دنیا نے کشمیریوں کے ’’حق خودارادیت یا استصواب رائے‘‘ کو تسلیم کر لیا۔ یہ تمام واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ کوئی بھی شخص یا ملک عالمی ادارے کے ریکارڈ کو دیکھ سکتا ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ بھارت نے ’’دلدل‘‘ سے نکلنے اور ریچھ کے روایتی کمبل سے جان چھڑانے کے لیے سلامتی کونسل کو استعمال کیا۔ ورنہ اول روز سے اُس کی نیت میں کھوٹ تھا۔ چنانچہ اُس نے کشمیری قیادت اور خصوصاً شیخ عبداللہ کو آلۂ کار بنایا اور جعلی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی کشمیر اسمبلی سے بعض شرائط کے عوض، بھارت کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچا ڈالا، اُن دنوں دُنیا دو بلاکوں، امریکہ اور سوویٹ یونین میں بٹی ہوئی تھی اور سرد جنگ عروج پر تھی۔
بھارت نے اپنا وزن سوویٹ یونین کے پلڑے میں ڈال دیا اور یوں سلامتی کونسل میں سوویٹ یونین کا ویٹو ہمیشہ کے لیے اپنے نام کرا لیا۔ ڈھونگ کشمیر اسمبلی نے جن شرائط کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا اُنہیں انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ اگست کو بھارتی چہرے پر پڑے شرم کے باریک پردے کو بھی پھاڑ ڈالا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں آئین کی دفعات 370 اور 35 الف بھی منسوخ کر دیں۔
اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں بیٹھ کر دُنیا بھر کے میڈیا کے سامنے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر دی، اس پیشکش نے مودی کو بدحواس کر دیا اور اُس نے وہ کچھ کر ڈالا جس کی دُنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ دُنیا بھر پر بنیا سیاست چھائی ہوئی ہے، ہر ملک کچھ کہنے سے پہلے اپنے معاشی مفادات کو دیکھتا ہے۔ کچھ عرصہ سے سوویت یونین کے جانشین روس سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہو چلے تھے۔ توقع تھی کہ ا گر کشمیر کا معاملہ عالمی ادارے میں گیا تو روس انصاف کا ساتھ دے گا مگر روس نے بھی بھارتی مئوقف کی حمایت کر کے پاکستان اور کشمیریوں کو سخت مایوس کیا۔ اس وقت اگر اس مسئلے پر پاکستان کی کوئی دو ٹوک حمایت کر رہا ہے تو وہ چین ہے۔ بھارت کا بحری بیڑہ بحرہند میں مشرقی افریقہ کے ساحلوں سے لے کر جنوبی ایشیا کے پانیوں میں دندناتا پھرتا ہے۔ ایران سمیت ہمارے عرب دوستوں کے ساحل اور تجارتی مفادات بھی بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بلاشبہ ان کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں، مگر ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت، کرپشن اور احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی۔ اور یہ کام بڑی شدومد سے جاری تھا۔ کہ نریندر مودی نے جلتے ہوئے کشمیر کے شعلوں کو مزید بھڑکا دیا۔ کشمیر کو وسیع جیل میں تبدیل کر دیا گیا، مارکیٹیں، کاروبار، تعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ مکمل بند ہیں۔ مسلمان عیدالاضحیٰ کی نماز بھی نہیں پڑھ سکے۔ سنت ابراہیمی نہیں ادا کر سکے، ساڑھے آٹھ لاکھ بھارتی فوجی، پیلٹ گنوں اور جدید اسلحہ سے لیس، درندوں کی طرح، لپکتے اور جھپٹتے پھرتے ہیں۔ بھارتی اقدامات، خطرناک اشارے کر رہے ہیں،تاہم بھارت نے جارحیت کی جسارت کی، تو پاک فوج، منہ توڑ جواب دے گی۔ کوئی بھی ملک ہو، خواہ وہ سپر پاور ہی کیوں نہ ہو، قومی یکجہتی کے بغیرجنگ نہیں لڑ سکتا۔ اس وقت پوری قوم کشمیریوں کے حق خودارادیت اور آزادی کی حمائت میں یکسو ہے۔ لیکن جہاں تک دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کا تعلق ہے، اس کے لئے ضروری ہے، کہ حکومت فوج کی پشت پر کھڑی ہو اور حکومت کی پشت پر پوری قوم۔
احمق سے احمق دشمن بھی، حملہ اُس وقت کرے گا۔ جب اُسے مزاحمت کی توقع کم سے کم ہو گی۔ چنانچہ مودی نے بھی یہ اقدام اُس وقت کیا کہ جب اُس نے دیکھا کہ پاکستان میں حکومت اور دوسری پارٹیاں ایک دوسرے سے بُری طرح اُلجھی ہوئی ہیں۔ جارحیت کی صورت میں تو ممکن ہے کہ اختلافات بھول کر ایک ہو جائیں، لیکن کشمیر کی صورت میں شائد وہ فضا نہ پیدا ہو، جس میں دشمن کے دانت کھٹے ہو جائیں۔
حالات اس موڑ پر لے آئے ہیں، کہ ہر صاحب فکر صرف ایک سوال ہی پوچھ رہا ہے ’’پس چہ بائد کرد‘‘ ہم اپنے آپ کو حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کوئی مشورہ دینے کا اہل نہیں پاتے لیکن، اب حالات کا تقاضا یہ ہے، کہ ، اولیت، بیرونی جارحیت کو دینا ہے۔ یا احتساب کو، یقیناً حکومتی حلقے بھی، اس نقطے کو موضوع غوروفکر بنائے ہوئے ہوں گے۔ احتساب تو بعد میں بھی ہوتا رہے گا اور ہونا بھی چاہئے۔ لیکن جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے قوم کو سیسہ پلائی دیوار نہ سہی سیمنٹ اور سریے کی دیوار تو ضرور بننا پڑے گا۔ سماں بڑا نازک ہے اور بڑی ہوشمندی کا تقاضا کر رہا ہے۔ ایک قوم ایک آواز، کا ہتھیار، اسلحہ کے ہمالیہ جتنے بڑے ذخائر پر بھاری ہے۔