سید افضل حیدر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ لاہور کی انارکلی میںہندوؤںنے ایک جلوس نکالاا ور عبد المالک جیسے کڑیل اور خوبرو نوجوان کی تکہ بوٹی کر دی۔سارالاہور سراسیمہ ہو گیا۔ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ عبدالمالک لاہور میں پاکستان کا پہلا شہیدہے۔ افضل حیدر بتا رہے تھے کہ ایف سی کالج میں کل سات مسلمان طالب علم تھے۔ ان میں ایک ظفر نیازی بھی تھے جو بعد میں ڈینٹل سرجن بنے اور انہیں بھٹو صاحب کے علاج کاا عزاز بھی ملا۔ ان کے والد عمر خان نیازی گورداسپور میں ایکٹنگ ایس پی تھے ، ان کے دفتر پر اٹھارہ اگست کی صبح دس بجے تک پاکستان کاقومی پرچم لہراتا رہا۔ افضل حیدر نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ایف سی کالج کے مسلمان طالب علموںنے اپنی حفاظت کے لئے چاقو اور چھریاں کمروںمیں چھپا رکھی تھیں اور اگست کی گرمی میں بھی خوف کے مارے کمروں میں سوتے تھے۔ ایک روز سکھ طالب علموںنے نعرے لگائے ۔ہم بھی کمروں سے باہر نکلے ۔ ایک سکھ نے اپنی کرپان ظفر نیازی کے پیٹ پر رکھ دی۔ میںنے آنکھیں بند کر لیں۔ مگر سکھوںنے بس یہی نعرہ لگایا کہ ماسٹر تارا سنگھ یہاں آ رہا ہے،۔ اس نے اسمبلی چوک میںکرپان لہرا کر اعلان کیا ہے کہ پاکستان نہیں بننے دیں گے۔سید افضل حیدر نے آنسوؤں کی زبان میں بتایا کہ وہ گھبرا کر پاک پتن چلے گئے جہاں ہر طرف موت کا راج تھا۔ نوزائیدہ بچوں کو چھریوں سے ذبح کیا جاتا تھا، نوجوانوں کو ننگا کر کے کھیتوں میں گھمایا جاتا اور پھر انہیں چھریوں اور کلہاڑیوں سے قیمہ بنا دیا جاتا۔جو لڑکیاں کبھی گھروں سے باہر نہیں نکلی تھیں اور سورج کی کرنوںنے ان کا چہرہ تک نہ دیکھا تھا، انہیں برہنہ کر کے گلیوںمیں گھمایا جاتا ،اور پھر سید افضل حیدر کی ا ٓواز ایک بار پھر ڈوب گئی۔ کہنے لگے یہ قیامت کوئی اور نہیں، علاقے کے وڈیرے اور جاگیر دارمسلمان ڈھا رہے تھے، ہم لوگوں کے پاس کفن دفن کے پیسے نہ تھے۔ ایک صاحب خیر نے روزانہ پچاس روپے دینے شروع کئے۔ ہم ہندوؤں کی دکانوں سے لٹھا خریدتے اور اس سے کفن سی کر لاشوں کو دفناتے۔،علاقے میں دو بسیں تھیں ،ان میں سے ایک بس میرے والد سید محمد شاہ سلیمانکی ہیڈورکس لے جاتے اور دریا پار سے آنے والے قافلوں میں سے خواتیں ۔ بچوں بوڑھوں اور مریضوں کو اس میں بٹھا کر پاک پتن لاتے۔ باقی لوگ سارا سفر پیدل طے کرتے۔ ہماری ایک بس ہیڈ ورکس کے پار گائوں میں تھی جس پر ہندوؤںنے قبضہ کر لیا تھا۔سید افضل حیدر نے نشیمن کی رونقوں کی بات شروع کر دی۔ سید مراتب علی کی یہ کوٹھی ایک ننھا منا پاکستان تھی۔جس روز ہائی کورٹ میں ریڈکلف کمیشن پر دلائل ختم ہوئے تو بر آمدے میں ہندو مسلمان وکلا کھڑے تھے۔ہندو وکیل نے چودھری ظفراللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کیس جیت جائیں گے۔ پھر ہندو وکیل نے پوچھا کہ آپ نے مقدمے کی پیروی کے لئے کتنی فیس لی ہے۔ چودھری ظفراللہ اور میرے والد سید محمد شاہ بیک آواز بولے۔ کیسی فیس ،یہ تو ہم نے سب کچھ اپنے وطن کیلئے کیا ہے ،اس پر ہندو وکیل نے کہا یہ بات ہے تو پھر میں بھی کانگرس سے وصول کی جانیو الی اپنی سات لاکھ فیس واپس کر دوں گا۔ اسے بھارت کا پہلا اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔سید افضل حیدرکے سامنے دستاویزات کا ایک ڈھیر تھا،۔ کہنے لگے میں نے اپنے خاندان کا سارا ریکارڈ محفوظ کیا ہوا ہے ،یہ دیکھیں وہ رسید جو میں نے دو آنے دے کر مسلم لیگ کی ممبری لی تھی۔ انہوںنے بتایا کہ ایک بار دو ویگنیںبھر کر انہوںنے فرنٹیئر پوسٹ کے دفتر بھجوائیں یہ انیس سو تیس سے انیس سو اسی تک کے اخبارات تھے مگر مسلم لیگ کے وزیر اعظم نواز شریف نے کسی عناد پر اخبار کے مالک کو جیل میں ڈال دیاا ور دفتر کا سارا ریکارڈضائع کر دیا۔ بعد میں میں نے نگران وزیراعلی افضل حیات کے دور میں جناب مجید نظامی سے کہا کہ اگر حکومت کوئی مناسب جگہ دے تو میں اپنی باقی ماندہ تاریخی دستاویزات اور تصاویر یہاں ایک میوزیم میں رکھ دوں۔ وزیر اعلی افضل حیات نے ہمیں چیئرنگ کراس میں فری میسن ہال کی جگہ دے دی مگر تین ماہ بعد الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ جیت گئی اور میاں شہباز شریف چیف منسٹر بن گئے،۔ انہوںنے اس بلڈنگ پر قبضہ جما لیا اورا سے اپنے ایک ذیلی دفتر میں تبدیل کر دیا۔ ساتھ ہی تحریک پاکستان کا سارا ریکارڈ اس مسلم لیگی وزیر اعلی کے ہاتھوں ضائع ہو گیا۔ یہ تھی محبت ان مسلم لیگی حکمرانوں کی قائد اعظم کی نگرانی میں چلنے والی تحریک پاکستان کے ساتھ۔سید افضل حیدر کو اللہ نے بلا کا حافظہ دیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ میں ایک ایک لمحے کی تصویر کشی کر سکتا ہوں ،۔کیا جذبہ تھا۔ کیا جو ش وخروش تھا۔ سیدمراتب علی کی کوٹھی نشیمن میں۔یہیں پر ظفراللہ نے قیام کیا تھا۔ یہاں کے دن اور راتیں جاگتی تھیں ۔ ایک لیڈر آ رہا ہے تو دوسرا جا رہا ہے۔ خدا کی قسم ۔یہ دن پھر کبھی نہیں آئیں گے۔پاکستان بنانے کے حق میںکوئی نہ تھا۔ نہ ہندو ۔ نہ سکھ اور نہ ا نگریز اور کچھ اپنے بھی۔برطانوی وزیر اعظم چرچل نے تو تجویز دی تھی کہ گاندھی اور قائد اعظم دونوں بوڑھے ہو رہے ہیں۔ اس لئے ایک سال کی تاخیر کر دو ۔ ہندوستان میں آزادی مانگنے والا کوئی نہ ہو گا۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اپنی تدبیر کرتے ہو۔ اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے ۔پتہ نہیں کہ انگریز کے ذہن میں کیا بات آئی کہ اس نے آزادی کی تاریخ کے لئے انیس سو سینتالیس کا سال مقرر کر دیا۔شاید انگریزوں کا خیال تھا کہ جلدی میں ملنے والے ملکوں کوہندو اور مسلمان سنبھال نہیں سکیں گے اورواپس تاج برطانیہ کی غلامی میں آ جائیں گے۔ انگریز نے اپنی طرف سے برا سوچا مگر یادرکھئے کہ اگر ایک سال بعد آزادی ملتی تو قائد اعظم نہ ہوتے ۔ وہ نہ ہوتے تو جو پاکستان ملا۔ کٹا پھٹا ہی سہی،۔ وہ بھی نہ ملتا اور ہمار ا حشر آج وہی ہو رہا ہوتا جو کشمیر کے مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ پاکستان تو بن گیا مگر ہمارے پاس کامن پن تک نہیں تھی۔ میں پاک پتن کے دیہات سے کیکر کے کانٹے لاتاا ور سرکاری دفاتر میں تقسیم کرتا کہ انہیں کامن پن کی جگہ استعمال کیا جائے۔، میرا نواسہ آج میرے ساتھ بیٹھاہے۔ یہ اکثر پوچھتا ہے کہ نانا جان ۔ یہ آپ کاغذ کے دوسری طرف کیوںلکھتے ہیں تو میں اسے بتاتا ہوں کہ ہمیںقائد اعظم کی ہدایت تھی کہ تم لوگوں کو جو چٹھی آئے۔ اسے احتیاط سے کھولو اوراگر جواب دینا مطلوب ہو تواس کے دوسری جانب لکھ کر بھجوا دو۔ یہ ہے وہ جذبہ جس سے پاکستان نے اپنے ابتدائی برس گزارے ورنہ ہندوؤں کا بھی نعرہ تھا کہ پاکستان صرف تین ماہ بعد بھوک اور دیگرمعاشی مسائل سے گھبرا کر اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ایک بار پھر سعید آسی کا شکریہ جن کے سفر نامے کی رونمائی کی تقریب کی وساطت سے قوم کے سامنے تحریک پاکستان کا ایک جیتا جاگتا، متحرک، سرگرم اور جذبوں سے لبریز ایک کردار سامنے آیا ہے ۔ سید افضل حیدر نے اپنے والد کا ایک طویل انٹریو ٹیپ ریکارڈ کیا تھا۔ یہ مشین خراب ہو گئی۔انہوںنے اپنے دو بڑے بھائیوں ڈاکٹر ظفر حیدر اور ڈاکٹر عباس حیدر سے در خواست کی تھی کہ وہ ساری روداد لکھیں مگر انہوںنے کہا کہ بھائی، یہ کام تو آپ ہی اچھا کر سکتے ہیں۔ اب افضل حیدر نے آخری گواہ کے نام سے تحریک پاکستان کی کہانی لکھ لی ہے۔ ایک نجی ٹی وی پر برادرم مجیب شامی نے چودہ اور پندرہ اگست کو افضل حیدر کا لائیو انٹرویو چلایا جس سے قوم کو پتہ چلا کہ ریڈ کلف بائونڈری کمیشن نے کس طرح مسلمانوںکے ساتھ تاریخ کا عظم دھوکہ کیا اور فیروز پور۔ مادھو پور۔ انبالہ ۔ امرتسر پٹھان کوٹ اور گورداس پور بھارت کو دے کر اسے کشمیر پر قابض ہونے کا موقع فراہم کیا،یہ ایوارڈ سترہ اگست کو بجلی بن کر مسلمانان پنجاب پر گرا۔ سر ظفراللہ کی وہ چٹھی افضل حیدر کے پا س موجود ہے جو انہوںنے سید محمد شاہ کو سترہ اگست کو پوسٹ کی تھی اور جس میںلکھا تھا کہ ابھی ابھی ریڈیو پر اعلان سنا ہے اور میرا سر چکرا کر رہ گیا ہے۔ بس اگلے روز سے مشرقی پنجاب کے مسلمان مہاجرین کے لاکھوں سرتن سے جدا کر دیئے گئے۔ نوزائیدہ بچوں کو برچھیوں کی نوک پر ہوا میں لہرایا جاتا اور ان کی چیخیں سن کر سکھ حملہ آور درندگی سے رقص کرتے۔ ہماری لاکھوں خواتیں نے اپنی عزتیں بچانے کے لئے کنوئوں میں چھلانگ لگا کر جان دے دی مگر اپنی آبر وبچا لی۔ میں یہ سب کچھ کیسے بتائوں۔ میرے پاس قلم ہوتا تو سید افضل حیدر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے والے آنسوئوں میں ڈبو کر یہ نوحہ لکھتا۔ انیس اگست بروز پیر کو سید افضل حیدر کی 89 ویںسالگرہ ہے تو ہم پاکستان کے اس شیدائی کے گھر نمبر اٹھاون ، گلبرگ جی بلاک میں انہیں گلاب کا ایک پھول پیش کریں اور ان کا صحن گلاب کی پتیوں سے بھردیں اور ا نکی درازی عمر کی دعا کریں۔ اور اس بوڑھے کی سفید نورانی داڑھی سے پھوٹنے والی آنسوئوں کی آبشار میں جھوم جھوم جائیں۔