کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کیلئے درمیانی راستہ نکالنا بورڈ کی ذمہ داری ہے: خالد محمود

لاہور(حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ نامزدگیاں جمہوری روایات اور اقدار کے منافی ہیں، بائیس کروڑ کی آبادی میں جنرل باڈی کے چند لوگ درست انداز میں نمائندگی نہیں کر سکتے، سٹیک ہولڈرز کے منتخب نمائندوں کی کمی سے جمہوریت کی روح متاثر ہوتی ہے،کرکٹ بورڈ میں بھاری تنخواہیں ہمارے طرز زندگی سے متصادم ہیں، مشاورت جمہوریت کا حسن ہے، جمہوری آئین اور بورڈ میں نامزدگیوں سے جمہوری روح متاثر ہوتی ہے، محکموں کو عزت، وقار اور اہم کردار دینے کی ضرورت ہے، آج بھی کرکٹ بورڈ کو اے ایچ کاردار مرحوم جیسی سوچ اور تدبر کی ضرورت ہے، کاردار مرحوم نے محکمہ جاتی کرکٹ کا آغاز حکومتی مدد کے بغیر کیا تھا، کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کی حفاظت کے لیے درمیانہ راستہ نکالنا کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے، عمران خان صرف وزیراعظم نہیں کامیاب کرکٹر بھی ہیں، انکا وڑن ملک کے وزیراعظم کے بجائے ایک کرکٹر کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا جمہوری آئین میں منتخب افراد کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔موجودہ حالات میں تدبر، بہتر حکمت عملی، منصوبہ بندی اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ محکمانہ کرکٹ کے آغاز سے کھلاڑیوں کا معاشی مستقبل محفوظ ہوا اور کھیل نے ترقی کی، ضرورت موجودہ نظام میں خامیوں کی نشاندھی اور معاملات فہم و فراست کے ساتھ چلانے کی ہے۔ دنیا میں کہیں محکموں کی ٹیمیں نہیں تھیں لیکن کرکٹرز کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اے ایچ کاردار نے محکموں کو ٹیمیں بنانے کے لیے منایا، انہوں نے حکومتی مدد کے بغیر یہ کام کیا، وہ جادوئی شخصیت کے مالک تھے جس محکمے میں جاتے تھے انہیں قائل کر کے آتے تھے۔ ان اس اقدام سے کھیل کو بہت فروغ ملا، عمران خان بھی کاردار مرحوم سے متاثر تھے۔ عمران خان نے کافی کرکٹ انگلینڈ اور آسٹریلیا میں کھیلی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس نظام سے ذہنی طور پر مضبوط اور تسلسل کے ساتھ پرفارم کرنے والے کرکٹر سامنے آتے ہیں ان کی یہ سوچ معیار کی حد تک ٹھیک ہے۔ اس طرح کا سسٹم یہاں لاگو کرنا اور کرکٹرز کی ملازمتوں کے لیے درمیانہ راستہ نکالنا کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے حالات ان ممالک سے مختلف ہیں۔ محکمہ جاتی کرکٹ نے کیا نقصان پہنچایا ہے یہ سمجھ نہیں آتا، کرکٹ ویسے ہی دنیا بھر میں زیادہ مقبول نہیں ہو رہا، علاقائی ٹیموں میں بھی محکموں کا اہم کردار ہونا چاہیے۔ چیئرمین کو اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے عدم اعتماد سے بچانے کے لیے زیادہ اراکین کی تعداد رکھی گئی ہے، بورڈ کے حالات اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے یہ شرط جمہوریت کے حساب سے سخت ضرور ہے لیکن مخصوص حالات کی وجہ سے اسے مناسب سمجھتا ہوں۔ جنرل باڈی میں زیادہ لوگوں کو ہونا چاہیے، جمہوریت مشاورت اور سننے کا نام ہے جب نامزدگیاں بڑھ جائیں اور منتخب افراد کم ہو جائیں تو جمہوریت کی روح متاثر ہوتی ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ نامزدگیاں کم سے کم اور منتخب افراد زیادہ ہونے چاہییں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...