شب خون سے سانحہ بہاولپور تک

آج کے دن 17اگست 1988ء کو صدر جنرل محمد ضیاء الحق فضائی حادثے میں شہید ہوئے۔ 5جولائی 1977ء کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تخت الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے۔ تاریخ دان ان کے محاسن اور زیادتیاں رقم کرچکے ہیں۔ان کے شب خون کو نظریہ ضرورت سے تعبیر کیا گیا۔ تاریخ میں تین بڑے طالع آزما گزرے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف جنہوں نے جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنایا۔ لونڈی کا کام اشاروں پر ناچنا ہوتا ہے، اس کی اپنی فکر، سوچ اور نظریہ نہیں ہوتا۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد کا سیاہ ترین باب بھٹو کو تارا مسیح کے ہاتھوں سولی پر لٹکانا تھا۔ دنیا بھر سے معافی نامے، التجائیں اور فریادیں ہوئیں۔ لوگوں نے خود سوزیاں کیں، کوڑے کھائے مگر جنرل ضیاء الحق ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بھٹو نے ہی انہیں افواج پاکستان کا قائد بنایا تھا، یوں وہ محسن بھی تھے، بھٹو اچھے تھے یا برے، انہوں نے قوم کو بیداری دی۔ استحصال سے نکالنے کی کوشش کی، سرمایہ داروں کو ہلایا، مزدوروں کو زبان دی۔ نیشنلائزیشن کی لیکن پھر انہی غریب اور عوام دوست اقدامات کی سزا پائی۔ عبرت کا نشان بنے، کال کوٹھڑی میں زندگی کے آخری ایام گزارے۔ بیوی بیٹی دربدر ہوتی رہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے خود کو اسلام پسند ظاہر کیا لیکن نرم دلی ان سے کوسوں دور تھی۔ 90دن کا کہہ کر آئے اورپھر کرسی سے چمٹے رہے تاکہ وقتیکہ موت نے انہیں آلیا۔ وہ ایک دردناک دن تھا جب C-130طیارہ شعلوں کی لپیٹ میں سب کچھ راکھ کرچکا تھا۔ طیارہ اہم شخصیات سے بھرا ہوا تھا، ان کا فضائی حادثہ اور حادثات کی طرح سپنس ڈائجسٹ بن گیا۔ بھٹو کی پارٹی آج بھی زندہ ہے خواہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے لیکن اقتدار میں رہتی ہے۔ پی پی نے اقتدار کی بھاری قیمت چکائی۔ بھٹو کو پھانسی، بینظیر کا قتل، ان کے بھائیوں کا قتل، گویا بھٹو کی اولاد میں ایک بیٹی صنم زندہ ہیں۔ باقی سب گڑھی خدابخش میں آرام کر رہے ہیں۔ زرداری بیمار ہیں، عمر کے اس مرحلے پر عدالتیں، پیشیاں، ضمانتیں، الزامات در الزامات ان کا مقدر ہیں۔ ان کے فرزند بلاول سے پارٹی کو امیدیں ہیں لیکن ابھی وہ تربیتی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ 40سال کے ہوں گے تو پختگی آئے گی۔ ضیاء الحق کے فرزند اعجازالحق کو نوازشریف نے سہارا دیا، وزارت دی لیکن طالع آزمائوں کی اولاد کیلئے عوام کے دلوں میں جگہ کم ہی ہوتی ہے۔ جمہوری اور غیرجمہوری قوتوں میں فرق ایسا ہی ہے جیسے اصلی اورنقلی میں۔اولاد حقیقی باپ کی عزت کرتی ہے، سوتیلے کو کم منہ لگاتی ہے، تشدد اور بے رحمی پر اتر آئے تو اور بات ہے۔ جمہوریت جس شکل میں بھی ہے، 12سال سے زندہ ہے۔ 5سال زرداری، 5 سال نوازشریف اور اب دو سال سے عمران خان کی باندی ہے۔  باندی تابع فرمان ہوتی ہے۔ اسے گھر کے اصل مالک کا پتہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی کے  زیر دست رہتی ہے۔ قد نکالنے کی  کوشش کرتی ہے تو پھر ایسی مار پڑتی ہے کہ دنیا دیکھتی ہے۔ عبرت پکڑتی ہے۔ غلام اور آقا مشرق و مغرب جتنا بُعد رکھتے ہیں‘ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز صرف مصرع ہے‘ حقیقت نہیں۔ کون سا سپاہی تھانے دار کے برابر بیٹھ سکتا ہے۔ کمزور سیاستدانوں نے طالع آزمائوں کے گرد گھیرا ڈالا۔ دائیں بازو کا میڈیا بھی جنرل ضیاء  کا ہم خیال و ہم نوا رہا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کی سرکولیشن  ڈمی اخبارات کے برابر رہ گئی تو وہ بالاآخر دم توڑ گئے۔ جنرل ضیاء کیلئے ان کا ڈھول کون اور کب تک سنتا؟ باد مخالفت کی باتیں میڈیا کے منہ سے سننے کا مزا آتا ہے۔ نوائے وقت ہر دور میں باد مخالف بنا رہا۔ مجید نظامی جیسا حریت پسند جو طالع آزمائوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالتا تھا۔ ایسے بھی رہنما آج بھی براجمان کرسی ہیں جنہوں نے مشرف کیلئے دن رات ایک کیا کہ وہ انہیں تاحیات باوردی صدر دیکھنے کے متمنی ہیں۔  چودھری ظہورالٰہی جنرل ضیاء کے مصاحبین خاص میں تھے۔ بعد از اں ان کے فرزند چودھری شجاعت حسین کو جنرل مشرف نے وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنائی۔ محمد خان جونیجو کو پیر پگاڑا کی سفارش پر وزیراعظم بنایا۔ جونیجو خود کو سچ مچ وزیراعظم سمجھ بیٹھے اور ضیائی مارشل لاء کو ختم کرنے کا کریڈٹ اپنے سر لے لیا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...