لوٹ کھسوٹ کا دور

Aug 17, 2020

خبریںآرہی ہیں کہ ایک بار پھر کوئی کراچی کو گود لینے کی تیاری کررہا ہے۔یہ بیچارہ بھی بے سرو سامانی کا شکار ایسا شہر ہے جیسے ستار ایدھی کے مشہور زمانہ جھولے میں پڑی کوئی گمنام والدین کی نا پسندیدہ اولاد۔کچھ دن کے لئے گود لیا جاتا ہے مگر اس کی قسمت بدلنے کے لئے نہیں بلکہ گود لینے والے کی قسمت کو چار چاند لگانے کے لئے جو اس سے  اس کے پاس جو بچا کچا ہوتا ہے لوٹ کر روانہ ہوجاتا ہے اور یہ پھر کسی اور کے انتظار میں دن گننے لگتا ہے۔اس کے رہنے والے بھی بہت بھولے ہیں۔بار بار لوٹے جاتے ہیں مگر پھر نئے آنے والے سے امید لگا بیٹھتے ہیں کہ یہ ضرور ان کی تقدیر بدل دے گا اور اس شہر کے وسائل اور اس شہر سے پیدا ہونے والی آمدنی کو اسی کی عظمت رفتہ بحال کرنے پر لگا دے گا۔اس شہرنے نہ جانے کتنے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کی قسمت بدل دی مگر افسوس اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔اب ایک بار پھر اس شہر کے لوگوں کو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں اور عندیہ دیا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کا درد رکھتی ہے اور اب بھر پور طریقے سے اس شہر کے مسائل کا بیڑا اٹھایا جائے گا اور اگر کوئی قانون وفاق کو کراچی کے معاملات میں مداخلت سے روکتا ہے تو اس کا سد باب کیا جائے گا اور پی ٹی آئی جس کو کراچی کی بیشتر سیٹوں پر پچھلے انتخابات میں کامیابی ہوئی تھی آگے بڑھ کر کراچی کا انتظام سنبھالے گی اور اس کے تمام مسائل حل کردے گی۔اعلانات تو بڑے خوش کن ہیں مگر میں کیا کروں کہ ہمیشہ سے دودھ پھونک پھونک کر پیتا ہوں۔ایک بات جس کا بڑا چرچا ہے وہ کراچی سے پی ٹی آئی کے جیتنے والوں ممبران قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈ ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم اپنا ہاتھ اس جماعت کے ہاتھ میں دیں اور کراچی تین دفعہ منظور ہے کا نعرہ بلند کرے کیا ہی اچھا ہو کہ اس پارٹی کے کراچی کے ممبران ان ترقیاتی کاموں کی تفصیل بتائیں اور ان کا  آڈٹ کرائیں جو انہوں نے اپنے ترقیاتی فنڈ سے کرائے ہیں۔بظاہر تو مجھے کوئی ایسا منصوبہ نظر نہیں آتا جس پر یہ فنڈ خرچ کئے گئے ہوں اور جس سے کراچی کے عوام کے مسائل میں کوئی کمی آئی ہو۔ایک اور بہت اہم نکتہ کراچی کی مردم شماری کا ہے۔حکمراں جماعت کراچی کے مسائل کا شور تو بہت ڈالتی ہے مگر حقیقت میں کام کچھ بھی نہیں ہوتا۔حالیہ کراچی کی این ڈی ایم اے کے ذریعے بارش کے مسائل کے حل کو ہی لے لیجئے۔ شور تو بہت تھا مگر اصل میں دو چار نالے ہی صاف ہوئے اور تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس شہر کا کچراکس طرح اور کہاں مستقل بنیادوں پر ٹھکانے لگایا جائے گا کیا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہوا اور اس کے لئے کسی سہولت کی تعمیر کی گئی؟ کیا کراچی میں برہنہ بجلی کے تار جو ہر بارش میں ایک درجن زندگیاں کھا جاتے ہیں ان سے بچائو کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا؟ سپریم کورٹ نے ضرور بجلی کمپنی کے ایم ڈی کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی مگر کیا اس کے نتیجے میں آپ نے کہیں پڑھا کہ ایم ڈی صاحب نے ہنگامی بنیادوں پر اس قسم کے مخدوش تاروں کو عوام سے دور رکھنے کے لئے کسی مہم کا آغاز کیا ہو؟ کیا ہوا اگر ایف آئی آر کٹ گئی اس کمپنی کے پاس تو وکیلوں کی فوج ہوگی جو پیشیاں نبٹائے گی اور رات گئی بات گئی کے مصداق ایم ڈی صاحب پھر اگلی بارش میں ایک درجن لوگوں کی فاتحہ پڑھ رہے ہونگے۔آپ نے دیکھا کراچی کے ساتھ کیا تماشہ کیا جاتا ہے۔ لگتا تو یہ تھا کہ بس اب کراچی کی قسمت کھل گئی۔ وزیر اعظم ٹوئیٹ کررہے ہیں اور اسلام آباد سے اکابرین تشریف لارہے ہیں مگر نتیجہ صرف دو چار نالوں کی صفائی اور کراچی والے بیچارے سمجھ رہے ہیں کہ شاید وفاق نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا۔ لگتا ہے کراچی پر وفاق کے قبضے کا جو منصوبہ ہے وہ بھی انگریزی کے محاورے کی طرح  کھانے کی پتیلی میں ایک چمک سے زیادہ نہ ہو اوراس کے کئی شواہد بھی موجود ہیں۔ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ خان صاحب کا کراچی کے بارے میں دل پسیج گیا اور وہ واقعی کراچی کی ترقی پر آمادہ ہیں تو اس کا تو بالکل شفاف ٹیسٹ ہے۔سب سے پہلے کراچی کی مردم شماری کے صحیح اعداد و شمار اکھٹا کرنا  ہدف ہونا چاہیئے۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلی مردم شماری میں کھلی دھاندلی ہوئی اور کراچی کی آبادی کے بارے میں اعداد و شماربالکل غیر مصدقہ اور زیادہ تر مصنوعی طور پر بنائے گئے ہیں۔ یہ جو کراچی پر قبضہ ہوگا اور دھوم دھام کے ساتھ بارات اسلام آباد سے آئے گی تو یہ کام کیسے کرے گی جب اسے اس شہر کی اصلی آبادی کا ہی پتہ نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ درست اعداد و شمار کسی بھی منصوبہ بندی کے لئے کس قدر اہم ہوتے ہیں اور کراچی جیسے بڑے اور پھیلے ہوئے شہر کے لئے جس میں اب سارے ملک سے لوگ آکر بس گئے ہیں ان اعداد و شمار کی کتنی اہمیت ہے۔اگر حکمراں جماعت کراچی کے بارے میں سنجیدہ ہے تو فوری طور پر کراچی کی از سر نو شفاف طریقے سے مردم شماری کرائی جائے تاکہ اب اس شہر کے بارے میں جو بھی منصوبہ بندی ہو وہ حقائق پر مبنی ہو اور اس شہر کے مسائل دیر پا بنیادوں پر حل کئے جاسکیں۔ اس کے بغیر اگر کراچی پر صرٖف نااہلوں کا ایک ٹولہ ہٹا کر دوسرا مسلط کیا جانا ہے تو مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوجائیں گے۔ویسے کراچی کے لوگ ہیں بھی بہت بھولے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ سندھ کی موجودہ حکمراں جماعت نا اہل اور بد عنوان ہے جس کی وجہ سے سندھ اور کراچی کی صورت حال ناقابل برداشت ہوچکی ہے مگر وہ اس بات پر بھی خوش ہو رہے ہیں کہ اس جماعت کی جگہ پاکستان تحریک انصاف لے گی اور کسی دستوری  ذرائع سے وہ کراچی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے  لے گی۔جہاں تک میرا خیال ہے اس صورت حال کو پھر ایک انگریزی کے محاورے سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ کراچی کے لوگوں کی حالت بقول اس محاورے کہ فرائی پین سے نکل کر آگ میں گرجانے کے مترادف ہے۔ جو جا رہا ہوگا وہ تو واقعی نا اہل اور بد عنوان مگر جو آرہے ہیں وہ بھی کوئی فرشتے نہیں۔ان کے پاس بھی پاکستان کے دو صوبے ہیں جن کے انتظامی اور مالی معاملات بھی کوئی قابل فخر نہیں۔ ان کے پاس پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس میں انتظامی اور مالی طور پر کوئی انقلابی تبدیلی نہ آسکی بلکہ اس صوبے کے وزیر اعلیٰ تو ایک کثیر رقم کے عیوض کسی ہوٹل کو شراب خانے کا لائسنس دینے کی پاداش میں نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ ان پر رشوت کا الزام ہے اور کوئی انہیں اس بات پر سرزنش نہیں کررہا کہ وہ شراب کے پرمٹ بانٹ رہے تھے۔اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے بر سراقتدار ٹولہ اپنے اس قسم کے نعروں میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اسی صوبے میں پولیس کی اصلاحات کا ڈھونگ زیادہ دن نہیں چل سکا اور ایک اور صوبے سے بلائے گئے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر جن کی پولیس اصلاحات کے سلسلے میں بڑی شہرت تھی جلد ہی فارغ کردیئے گئے۔اسی صوبے میں سانحہ ساہیوال جیسے دل خراش واقعات پیش آئے جہاں ۱۳ سالہ بچی کو دن دہاڑے چھ گولیاں ماری گئیں اور سارے قاتل صاف بری ہوگئے۔ خاں صاحب اب تو اس واقع کاذکر بھی نہیں کرتے جس کی ایسی کوئی نظیربہرحال سندھ میں نہیں ملتی۔کراچی کے لوگ جن نئے حاکموں کے انتظار میں نگاہیں فرش راہ کرنے جارہے ہیں  ان کے سندھ میں اور کراچی میں نمائندے بھی  کوئی قابل فخر ریکارڈ نہیں رکھتے۔ ایک ممبر جس کے پاس قابلیت اہلیت اور شفاف ریکارڈ بھی تھا  انہیں تو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا گیا۔اس ایک طرز عمل سے پاکستان کے حکمرانوں اور ان کی کراچی کی ترقی اور خوشحالی میں دلچسپی کا بھانڈا پھوٹ گیا۔اگر انہیں سنجیدگی کے ساتھ کراچی میں کام کرنا ہوتا تو وہ ان لوگوں کو سامنے لاتے اور انہیں بھر پور اختیارات دیتے جن کی کراچی سے لگن اور قابلیت اس بات کی ضمانت ہوتی کہ اس بار کراچی کے ساتھ کوئی ڈرامہ نہیں ہورہا بلکہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے مسائل کے حل کی راہ ڈھونڈی جارہی ہے۔سچ بات یہ ہے کہ اس وقت بر سر اقتدار جماعت کی جو ٹیم کراچی پر قبضے کے لئے پر تول رہی ہے ان کی بے تابی اور شہرت بتا رہی ہے کہ شہر کراچی  کو لوٹ کھسوٹ کے ایک اور دور کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔

مزیدخبریں