افغانستان میں کئی مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد اب دھول بیٹھنے کا وقت آگیا ہے اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اب معاملات واضح شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ حالات کو خراب تر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے والے اشرف غنی ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ وہ لوگ جو کئی معاملات میں اشرف غنی کا ساتھ دے رہے تھے اب طالبان کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں، صدیوں سے یہی ہوتا ہے کہ اقتدار ایک سے دوسری قوت کو منتقل ہوتے ہی بہت سے موقع پرست وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں۔ خیر، صدارتی محل اب طالبان کے قبضے میں ہے اور وہ عبوری حکومت بنانے کی تیاری بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں علی احمد جلالی کو نئی حکومت کا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صدارتی محل میں حکومت کی تشکیل سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ثالث کا کردار ادا کیا جو قبل ازیں اشرف غنی کے ساتھ حکومت میں شامل تھے اور افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ تھے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس مصالحتی کونسل کا کیا بنے گا اور عبداللہ عبداللہ کا مستقبل کیا ہوگا، یہ تاحال واضح نہیں ہو پایا۔
افغانستان کے مختلف شہروں اور صوبوں پر جس تیزی سے طالبان کا قبضہ ہورہا تھا اور ان کے مقابلے میں افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار جس طرح ہتھیار ڈال رہے تھے اس سے واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ عنقریب طالبان کابل تک پہنچ جائیں گے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں نے اس پوری صورتحال کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کرنے اور اپنی سکیورٹی فورسز کی حالت دیکھنے کے باوجود معاملات کو بہتری کی طرف لانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ حد یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے سمجھانے کے باوجود انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے پر توجہ دینے کی بجائے فضول بیانات کے ذریعے جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں اشرف غنی اور ان کے کچھ ساتھی پاکستان اور پاک فوج پر بھی مسلسل الزامات لگاتے رہے حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے پاکستان نے نہ صرف خود بھرپور کوشش کی بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کو بھی اس سلسلے میں متحرک کیا اور امریکا اور افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات میں بھی پیش پیش رہا۔ اس بات کا اعتراف امریکی انتظامیہ بھی کرچکی ہے۔
اشرف غنی اپنے ملک سے فرار ہو کر ہمسایہ ملک تاجکستان پہنچ چکے ہیں جبکہ افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔ اشرف غنی نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان سے جانے کا فیصلہ انہوں نے خونریزی روکنے کے لیے کیا۔ اب یہ وہی سمجھا سکتے ہیں کہ ان کے جانے سے خونریزی کیسے رک سکتی تھی۔ خیر، کابل میں طالبان کی آمد پر صورتحال یہ تھی کہ ہزاروں شہریوں نے ان کے قافلے کا استقبال کیا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی میڈیا اور مغربی حکومتوں کے زیر اثر کئی دیگر ممالک کے ذرائع ابلاغ نے طالبان اور افغان عوام کے درمیان کدورت کا جو پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے وہ مبنی بر حقیقت نہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے کابل پر اپنا قبضہ ہوتے ہی عام معافی کا اعلان کردیا۔ اس حوالے سے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں، اقتدار پُر امن طریقے سے منتقل کیا جائے گا۔ سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں مل کر افغانستان کی خدمت کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان اور دیگر لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں اور ان کو خوش آمدید کہیں گے جو بدعنوان کا بل انتظامیہ کے خلاف ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے، جنگجوؤں کو حکم دیا کہ وہ کابل کے ان علاقوں میں داخل ہوں جہاں سے انتظامیہ ہٹ چکی ہے تاکہ وہاں دفاتر وغیرہ خالی ہونے کی وجہ سے عوام کو کسی قسم کا خوف اور پریشانی نہ ہو۔ طالبان قیادت نے جنگجوؤں کو تشدد نہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور کسی کو جشن منانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح، اپنی خواہش پر کابل سے جانے والوں کو روانگی کی اجازت دیدی گئی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ خواتین کے حقوق ، میڈیا نمائندوں اور سفارتکاروں کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔
اب افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں ایک افغان وفد قطر روانہ ہو گا جو قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کرے گا۔ طالبان رہنما عبدالقیوم ذاکر نے بھی افغان صدارتی محل میں ایک غیر ملکی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔ ملا عبدالغنی برادر تادمِ تحریر قطر میں ہی ہیں لیکن وہ کسی بھی وقت افغانستان پہنچ سکتے ہیں۔ ملا برادر نے کابل کی فتح پر قطر سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کی پوری مسلم ملت بالخصوص کابل کے شہریوں کو فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اللہ کی مدد و نصرت سے یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اللہ کا ہر وقت عاجزی کے ساتھ شکر ادا کرتے ہیں۔ کسی غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہیں۔ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اور ان کے معاونین بھی تاحال کابل نہیں پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق، وہ سکیورٹی انتظامات کے بعد کابل آئیں گے۔
خیر، افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام تک انتظامی معاملات چلانے کے لیے ایک رابطہ کونسل بنا دی گئی ہے جس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ اب طالبان کو افغانستان میں موجود تمام اہم دھڑوں کو ساتھ ملا کر حکومت کی تشکیل کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ امریکی اور اتحادی افواج کی وجہ سے افغان عوام گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل حالت جنگ میں ہی رہے ہیں اور اگر اب بھی انہیں امن و سکون نصیب نہیں ہوتا تو پھر غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ اس سلسلے میں معاملات کو افہام و تفہیم سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسی حکومت تشکیل دی جاسکے جس میں سب کی نمائندگی بھی موجود ہو اور جس پر سب اعتماد بھی کرتے ہوں، اور حکومت کو ہر قیمت پر ملک کے طول و عرض میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔
افغانستان: معاملات کوافہام و تفہیم سے آگے بڑھایا جائے
Aug 17, 2021