کابل عالمی قوتوں کا میدانِ جنگ تھا۔ جہاں امریکہ ،بھارت،اسرائیل پورے کروفر کے ساتھ حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے مہروں کی پشت پر تھے۔ سب کابل میں غارت ہو گئے۔ جہاں بیک وقت ایک نہیں کئی سقوط ہوئے ہیں۔ سقوطِ کابل ہوا، سقوطِ واشنگٹن ہوا، سقوط دلی و سقوطِ اسرائیل ہوا۔ کابل میں ایک ہی وقت میں چین اور امریکہ نبردآزما تھے۔ پاکستان اور بھارت برسرپیکار تھے۔ طالبان اور اشرف غنی حکومت ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھی۔ اگر مجھے مختصر الفاظ میں سارے منظرنامے کو سمیٹنے دیا جائے تو سب سے زیادہ جہاں اس جنگ میں جانی نقصان افغانوں کے بعد پاکستان کا ہوا ہے، وہیں سب سے زیادہ سرخرو پاکستان ہوا ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی نے سب کو مات کر دیا۔ بہترین انداز میں پتے اسی نے کھیلے۔ امریکہ جس طرح افغانستان سے رسوا ہو کر نکلا اور جس طرح اشرف غنی لنگی چھوڑ کر صرف لنگوٹی میں بھاگا ہے۔ آج امریکہ طالبان کے رحم و کرم پر ہے۔ کل تک اپنے فاتح کا تاثر دینے والا امریکہ آج طالبان سے اپیل کر رہا ہے کہ اسکے شہریوں کی حفاظت کی جائے۔ افغانستان میں امریکہ نے ایک سو پچاس ارب ڈالر خرچ کرکے تین لاکھ کی تعداد میں افغان فوج کھڑی کی۔ اسے دنیا کا جدید ترین اور بہترین اسلحہ دیا گیا۔ اسکی بھارت ،نیٹو، اسرائیل، اور خود امریکہ نے بھی تربیت کی۔ جب ان کی کارکردگی جانچنے کا موقع آیا تو یہ خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ کسی نے سچ کہا Man Behind the Gun is Moreimportant پاک فوج ایسی ہی فوج ہے ۔ISI نے ایک بار پھر بغیر گن کے افغانستان میں نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے کابل کو واشنگٹن ،دلی اور تل ابیب کا قبرستان بنا دیا۔ امریکہ، سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں نے روس کو گرم پانی تک پہنچنے سے روکنے کیلئے مدرسوں کے طلبہ پر مشتمل ایک مزاحمتی فورس تشکیل دی جن کے پاس امریکی اسلحہ اور تنخواہیں امریکی ڈالر میں ملتی تھیں جبکہ انکی خصوصی پہچان رکھنے کیلئے انکو یونیفارم مہیا نہ کی گئی۔ اور پھر مذہب اسلام کا لبادہ اور نقاب اوڑھ کرمجاہدین کو روس کے سامنے حفاظتی بند کے طور پر رکھا گیا۔ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کی قربانی کے بعد روس افغانستان سے شکستِ فاش اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا داغ لے کر نکلا۔قارئین! اب بات یہی پر ختم نہیں ہو جاتی روس کے شکست کھا جانے کے بعد امریکہ پوری دنیا کے لیے واحد سُپر پاور بن کر سامنے آیا۔اور زعم میں عراق کو روندتا ہوا کویت ،سعودی عرب اور میڈل ایسٹ میں اپنی فوجیں اتار دیں اور اپنے فوجی اڈے قائم کر دیئے۔اسی دوران 9/11 کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا واقعہ رونما ہوا۔جس کو جواز بنا کر امریکہ نے افغانستان میں مجاہدین (طالبان) کی حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیااور پھر انسانی آنکھوں نے تورا بورا جیسے خوفناک مناظر دیکھے۔یہ امریکہ کی حسب عادت طالبان سے سراسر بے وفائی تھی اور طالبان کے پاس جو افرادی قوت تھی جب انہیں حکومت سے بے دخل کیا گیا تو یہ بیکار ہو کر رہ گئے یعنی انہیں ’’جاب لیس‘‘ کر دیا گیا۔ قارئین آپ خود ہی سوچیں جب ایک شخص جس کے پاس اپنا ہتھیار اور اسلحہ تو ہو مگر اسے ملازمت سے برخاست کر دیا جائے تو اپنی زندگی بچانے کے لیے اور کیا کرے گا؟اور طالبان کو تو صرف بندوق ہی چلانا آتی تھی۔اس طرح انہوں نے بیس سال مزاحمتی جنگ کرکے دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد ’’نیٹو‘‘کے لاکھوں فوجیوں اور دنیا کے جدید ترین اسلحہ کے مقابلے میں صرف مشین گنوں اور اے کے 47 سے مزاحمت کی۔اور 2 کھرب ڈالر زاور بیس سال کے بعد امریکہ کو کابل میں ویت نام جیسی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔قارئین!سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ کابل میں امریکہ کو انسانی تاریخ کی بدترین شکست ہوئی ہے اور اب امریکی صدر جوبائیڈ ن کو استعفیٰ دے کر امریکہ عوام کے سامنے پیش ہو جانا چاہیے۔ قارئین! میری ناقص رائے کے مطابق امریکہ جو ابھی تک ویت نام کی شکست کے اثرات سے باہر نہیں نکلا تھا اس کو کرونا وائرس اور کابل کی شکست نے ایک بار دنیا میں کھوکھلا اور ایک ناکام عالمی طاقت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔اور امریکہ کا جو برہم قائم تھا وہ پاش پاش ہو چکا ہے۔قارئین !امریکی شکست پر پاکستان کو بھی محتاط رویہ اپنا ہوگا ۔پاکستان میں ایسے بے شمار لکھاری ،کالم نگار اور دانشور موجود ہیں جو امریکی شکست اور طالبان کی فتح کو پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال کر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ہمیں اس پرائی آگ سے یکسر بچنا ہوگا، ہمارے پاس پہلے چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہیں اور ہماری لاغر معیشت اس سے زائد کی متحمل نہیں ہو سکتی۔