عوام سلطنت کی طاقت تصورکی جاتی ہے ،جواپنے ووٹ کی طاقت سے بساط الٹ دیتی ہے ،ہماری عوام باشعور ہے،لہذا ان کے لئے "سچ کیاہے؟"جاننا نہایت اہم ہے ،لیکن بعض اوقات معاشرتی ومعاشی مسائل مل کر آپ کی سوچ کومنتشر کردیتے ہیں،لیکن حالات جیسے بھی ہوں ،عوام کی منتشر سوچ کویکجا کرنااداروں کافرض ہے ،دوسری طرف دیکھاجائے توآگہی دینے کابیڑہ پناہ نے 37سے اٹھارکھاہے،لیکن بات فقط آگہی تک نہیں رکتی ،عملی اقدامات نہایت ضروری ہیں،جنھیں عملی جامع پہنانا اداروں کافرض ہے،تا کہ عوامی مسائل کی وجہ بننے والے عوامل کاتدارک بھی کیاجاسکے۔
حکومت کی طرف سے ہر غریب وامیر فردپر ٹیکس اداکرناضرور ی قرار دیاگیا ،جو اس بات کاغمازی ہے کہ ٹیکس ضروری ہے تاکہ حکومت کے ریونیومیں اضافہ ہواورمسائل کاسدباب کیاجاسکے ،لیکن اگرہم یہاں پرعوام کی صحت کی بات کریں توبہت سے ایسے صحت کے لئے نقصان دہ عوامل جو نہ صرف انھیں جاں لیوابیماریوں کی طرف دھکیل رہے ہیں،بلکہ قومی خزانے پربھی بار بن رہے ہیں،ان پرٹیکس کے نفاذ میں عدم پیش رفت سوچنے پرمجبورکرتی ہے کہ آخرکار ایسی کیاوجوہات ہیں کہ ایک طر ف چھوٹی سے چھوٹی عوام کی ضرورت کی چیز پرٹیکس نافذ ہے لیکن دوسری جانب بڑی بڑی اورمہنگی بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کو ٹیکس میں اضافہ سے مبراکردیاگیا ہے۔ زیر بحث لائے جانے والے کچھ اہم نقاط عوام اوراداروں کی توجہ کی منتظرہیں ، آج سے 50سال قبل دل کے امراض نہ ہونے کے برا برتھے،جوآہستہ آہستہ وباء کی صورت میں پھیلتے جارہے ہیں ،50فیصد لوگوں میں اس مرض کی پہلی علامت ہارٹ اٹیک ہوتاہے،اورتقریبا30فیصد مریض ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی اللہ کوپیارے ہوجاتے ہیں،آج پاکستان میں ہر دوسرے منٹ میں ایک آدمی کوہارٹ اٹیک ہورہاہے،10سے 12فیصد ہسپتال پہنچ کربھی نہیں بچ پاتے ،ان میں 50فیصد لوگ 45 سے 50 سال کی عمر کے ہوتے ہیں، صحت کے ان مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی ومعاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں،تمباکونوشی دل سمیت کینسرودیگر خوفناک امراض کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے ،9جنوری 2021کوسسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیویٹ( ایس ڈی پی آئی)کی انگلش جریدہ میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سگریٹس کی سالانہ کھپت 86.6 بلین ہے،پاکستان میں 22 ملین افرادتمباکو استعمال کرتے ہیں،لیکن نہایت افسوس سے کہناپڑرہاہے کہ حالیہ پائیڈ پرشائع ہونے والی اسٹڈی نے ہمیں بتایاکہ ان میں 60 فیصدشہری ہمارے بچے ہیں۔
اس بات کوقطعی طورپرنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ کم عمری میں تمباکو نوشی شروع کرنے کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سگریٹ کاسستاہوناہے ، بہت کم لوگ 40 کی دہائی میں سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں،جب قیمت بڑھے گی توہمارے بچے اوربچیاں سگریٹ نہیں لے سکیں گے اورسستے برانڈز کی جانب جاناپسندنہیں کرینگے ،جوان کی تمباکونوشی کی عادت چھڑوانے میں موثرطریقہ ثابت ہوگا۔ہم وطنوں کے لئے یہ بات جاننانہایت ضروری ہے کہ سگریٹس پردوبنیادی ٹیکسز فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی(ایف ای ڈی)اورسیلز ٹیکس نافذ کیے جاتے ہیں،ایف ای ڈی ہمیشہ سگریٹ کی ڈبیہ کی قیمت کومدنظر رکھتے ہوئے لگایاجاتاہے،یہاں ہم ذراماضی کی پالیسیوں میں اگرجھانکیں تومعلوم ہوگاکہ پہلے TIERمیں لگائے گئے فارمولا کے تحت اگر سگریٹ کی ڈبیہ 88روپے یا اس سے زائد ہوگی ،تواس پرایف ای ڈی 74.10ہوگا،اگر90روپے یااس سے زائد ہوگی توایف ای ڈی 74.80روپے ہوگا،دوسرے TIERکے مطابق سگریٹ کی 88روپے کی ڈبیہ پرایف ای ڈی 32.98اوراگر58.50روپے کی ڈبیہ ہوتو ٹیکس 34.40روپے ہوگا،لیکن حکومت نے پہلے ٹیئر کے بعد دوسرا ٹیئرنافذ کرنے کے بجائے براہ راست تیسر اtierنافذ کیا،کیوں کہ ایف بی آر نے غیرقانونی تجارت کی حوصلہ شکنی کے لئے تھرڈtier کوضروری قرار دیاتھا،جس کافارمولا 58.50کی ڈبیہ پرفقط 16روپے ایف ای ڈی تھا،جو دوسرے tierکے ایف ای ڈی کے مقابلے آدھے سے بھی کم تھا،ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دبائو میں آکر فیصلہ لینے کے نتیجے میں حکومت کوجوریونیو2015-16میں 114ارب روپے کی صورت میں مل رہاتھا،وہی 2016-17میں 31ارب روپے کے نقصان کے ساتھ 83ارب روپے تک آپہنچا،جس کی ذمہ داری اگر قوانین بنانے اوراس کااطلاق کرنے والے ذمہ داران پرعائد کی جائے توغلط نہ ہوگا۔افسوس ناک امریہ ہے کہ ریونیوکی مدمیں اربوں روپے نقصان اٹھانے کے بعدحکومت کواحساس ہواکہ ان کافیصلہ تو غلط تھا،جس پرحکومت نے تھرڈ tier ہٹا کردوسراtierنافذکیا،جس میں "پناہ "کی کاوشوں کوکسی طورپربھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا،لیکن بات یہاں تک نہ رکی ،ٹوبیکوانڈسٹری کی ہیراپھیری سے قومی خزانے کو2016سے 2019تک تین سالوں میں 62بلین روپے کے نقصان کاسامنا رہا،2018-19میں جوریونیو139ارب روپے متوقع تھاوہ فقط 3 5ارب روپے کے نقصان کے ساتھ فقط 104بلین روپے حاصل ہوسکا،اس طرح سے قومی خزانہ کوالگ دھچکاپہنچااوربیماریوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوا۔وطن عزیز کی ترقی قوم کے ہر فرد کی کامیابی ہے ،ملک کاذمہ دارشہری ہونے کے ناطے کچھ سوالات میرے ذہین میں بھی جنم لیتے ہیں،جن کاجواب ریونیوجمع کرنے والے قومی ادارہ فیڈرل بورڈآف ریونیو( ایف بی آر) کے پاس ہے،سگریٹ کی غیر قانونی تجارت پرایف بی آر خود سے سروے کیوں نہیں کرواتا؟تھرڈtierکے منفی نتائج کوعوام کے سامنے کیوں نہیں لایاگیا؟تھرڈ tierسے بھاری بھرکم قومی خزانہ کے نقصانات کااندازہ لگایالیاجاتاتوآج صورت حال مختلف ہوتی ،اس کاذمہ دار کون ہے؟درست اقدامات اٹھانے کی صورت میں نہ صرف حکومت کواربوں روپے کاریونیوحاصل ہوتا،بلکہ تمباکوسے جڑی بیماریوں پرجن حکومت کوسالانہ 615ارب روپے کے معاشی بوجھ کاسامناہے ،اس میںبھی خاطرخواہ کمی واقع ہوتی،5دسمبر2017کوفیڈرل سٹینڈنگ کمیٹی کی نشاندہی کے باوجود بھی ایف بی آر کی جانب سے ٹوبیکوانڈسٹری کاآڈٹ نہیں کیاگیا،اس کی وجہ کیابنی ؟
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ٹوبیکوانڈسٹری نے دعوٰ ی کیاکہ ایف ای ڈی کے نفاذ سے سگریٹ کی غیرقانونی تجارت میں اضافہ ہواجب کہ ایک سروے کے نتائج اس کے بالکل برعکس رہے ،جس کے تحت ملک میں غیرقانونی تجارت 10سے 16فیصد سے زائد نہیں ۔
ایک پاکستانی جریدہ کے مطابق سگریٹ انڈسٹری سالانہ 200بلین روپے کامعاوضہ کمارہی ہے ،اب ضرورت اس امرکی ہے کہ عملی اصلاحات اٹھائی جائیں،اگر سگریٹ کی ایک ڈبیہ پرورلڈ بینک کی تجویز کردہ 30روپے ایف ای ڈی نافذ کیاجائے تو134ارب روپے سالانہ ریونیومیں اضافہ ہوگا،ریونیو کے نظام کومذیدموثربنانے کے لئے ٹریک اینڈ ٹریس کانظام بھی نافذالعمل کرنے کی اشد ضرورت ہے،تاکہ متعلقہ اداروں کے منتظمین کے ردعمل کوبہتربنایاجاسکے،اس کے ساتھ ٹوبیکوانڈسٹری کافوری آڈٹ بھی کروایاجائے ،جوایف بی آر کی کسی ویب سائیٹ پرآج تک دکھائی نہیں دیا۔
ڈبلیوایچ اواوردیگراداروں کی تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ اگرکسی شے کی کھپت کوکم کرناہوتواس کے لئے ٹیکس کانفاذ موثرذریعہ ہے ،صحت عوام کابنیادی حق ہے جس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے ،پہلے ہی ٹیکس کے عدم نفاذسے حکومت کواربوں روپے کانقصان پہنچ چکاہے ،لہذاایف ای ڈی کے نفاذ کویقینی بنایاجائے تاکہ عوام بیماریوں سے بچ سکیں اوراربوں روپے کاریونیوجمع ہوسکے ۔