آزادیِ صحافت یا آزادیِ ریاست ؟

Aug 17, 2022

ہمارے ملک میں ماہ اگست کو 14اگست کی مناسبت سے منفرد شناخت اور اہمیت حاصل ہے۔ امسال اگست میں اوورسیز پاکستانیوں نے دنیا بھر میں جبکہ پاکستانیوں نے مادروطن پاکستان میں 75واں یوم آزادی ’’باجوں‘‘کے شور میں منایا۔ سبز ہلالی پرچم اٹھانے اور لہرانے والے بچوں کے ہاتھوں میں باجا کس نے تھما دیا ، اس سازش کا سرا تلاش اور اس کا سدباب کرنا ہوگا ورنہ یہ باجا کلچر ہمارا بینڈ بجا دیگا۔ جنون اور جہالت سے نجات کیلئے معاشرے میں تعمیری فنون کوفروغ دیا جائے، تاہم’ ’ٹک ٹاک‘‘کی نجاست اورنحوست سے حیا کا بند ٹوٹ گیا جبکہ بے حیائی کاعذاب کسی سیلاب کی طرح امڈآیا ہے،اسلامی معاشروں میں اس قسم کی ابلیسی ایپس کی مستقل بندش ناگزیر ہے۔اخبارات سے درخواست ہے وہ اخلاقیات سے نابلد گمراہ عناصر کوٹک ٹاک سٹار نہ لکھیں۔’’دعا‘‘زہرہ کاواقعہ یقینا کسی ’’بددعا‘‘کا شاخسانہ لگتا ہے،اسلام نکاح کیلئے بیٹیوں کی پسندناپسند پوچھنے کاحامی ہے لیکن ماں باپ کیخلاف بغاوت کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا، ہماری قوم کے بچے یادرکھیں جوماں باپ کو’’دکھی‘‘کرتے ہیں وہ خود بھی’’سکھی ‘‘نہیں رہ سکتے۔ یادرکھیں جہاں پیسہ پیشہ بن جائے وہاں سے اخلاقیات کاجنازہ اٹھ جاتا ہے،سوشل میڈیا نے ہماری شاندار سوشل روایات کی عمارت کوزمین بوس کردیا ہے ۔ ہمارا معاشر ہ اسلامی تعلیمات ، مشرقی روایات سے انحراف اورعدم برداشت کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ معاشرے میں مایوسی اورافواہیں پھیلانا مجرمانہ فعل ہے ،جوعناصرایساکرتے ہیں ان کامحاسبہ کیا جائے۔ صمیم قلب سے دعا ہے اللہ رب العزت گمراہ عناصر کے مذموم ارادوں سے ہماری ریاست اورپاک فوج سمیت ریاستی اداروں کواپنی پناہ میں رکھیں۔ آزادی صحافت نہیں آزادی ریاست مقدم ہے سو ہمارے ہاں جو پندرہ سترہ سال کے ناتجربہ کار کاکے اور کاکیاں سوشل میڈیا پرتجزیہ کاربنے بیٹھے ہیں اوران شتر بے مہار شریرنوجوانوں کے شر سے کوئی محفوظ نہیں۔ پرجوش نوجوان اپنے کپتان سے ضرور محبت کریں لیکن انہیں کپتان کیلئے پاکستان یعنی اقتدار کی سیاست کیلئے بیش قیمت اقداراور ریاست کوداپرلگانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا ، اس طرح پی ٹی آئی کے جنون اورمسلم لیگ (ن) میں کیا فرق رہ جائیگا۔کپتان کے وزیراعظم منتخب ہونے میں انکی تیسری اہلیہ کاکوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن ان کی سبکدوشی میں بشری بی بی سمیت عثمان بزدارکے کلیدی کردارسے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کپتان کواقتدار سے ہٹانے میں یقینا امریکا اوراس کے مقامی سہولت کاروں نے ایک منظم سازش رچائی لیکن آغاز سے انجام تک کپتان بھی قدم قدم پر غلطیاں کرتے رہے ۔ راقم نے کئی بار کپتان کومخاطب کرتے ہوئے لکھا،’’بزدار کو بچاتے بچاتے کپتان اپنااقتدار دائو پرلگابیٹھے گا‘‘۔ تخت لاہور پر ’’بزدار‘‘ کی بجائے چوہدری پرویز الٰہی کی صورت میں’’بردبار‘‘ براجمان ہوتا تو کپتا ن کوہٹانااس قدر آسان نہیں تھا۔ افسوس اقتدار سے بیدخلی کے باوجود کپتان نے اپنی اندرونی کمزوریوں، غلطیوں اورسیاسی ناکامیو ں کاجائزہ نہیں لیا ،اس وقت بھی بیسیوں بزدار پی ٹی آئی کاہراول دستہ ہیں۔ اگر کپتان نے ممتازقانون دان حامدخان کومنالیا جبکہ انہیں مشاورت کیلئے چیف جسٹس (ریٹائرڈ) میاں ثاقب نثار کی صحبت حاصل ہے توان کی خدادادصلاحیتوں سے استفادہ بھی کریں۔کپتان نیوٹرل کی گردان اوران کے حامی افواج پاکستان کی جان چھوڑدیں۔وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد کپتان کوایوان چھوڑنے کامشورہ کس نے دیا ، پی ٹی آئی کے منتخب ممبران سینیٹ سمیت صوبائی اسمبلیوں میں تو براجمان ہیں تو پھر انہیں قومی اسمبلی میں آنے اورطاقتور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں کیا پرابلم ہے۔ قومی اسمبلی کے مسلسل بائیکاٹ کے بعد کپتان کا ایک ساتھ قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں بیک وقت ضمنی الیکشن کے میدان میں امیدوار کی حیثیت سے اترنے اور پی ڈی ایم کے نامزد امیدواروں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟ میں سمجھتا ہوں کسی امیدوار کو بیک وقت ایک سے زائد حلقوں میں امیدوار بننے کا حق نہیں ملنا چاہئے۔ایک طرف کپتان نے پنجاب میں ضمنی الیکشن کیلئے اپنے امیدوارمیدان میں اتارے تھے تودوسری طرف انہوں نے پارلیمنٹ میں متحدہ حکومت کیلئے میدان خالی چھوڑدیا تھا ،ان کے اس دوہرے معیار سے یقینا عام ووٹرز کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے سنجیدہ ورکرز بھی بدگمان اورپریشان ہوئے ہوں گے۔اگرکپتان اپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ ایوان میں جمہوری سیاسی انداز سے مزاحمت کر تا توشایدوہاں سے نیب کاجنازہ نہ اٹھتا اورکئی ملین اوورسیزپاکستانیوں کوووٹ کے بنیادی حق سے محروم نہ کیاجاتا۔بہتر ہوگاکپتا ن نیوٹرل سے گلے شکوے کرنے کی بجائے اپنی توپوں کارخ قومی چوروں کی طرف موڑیں اورعوامی عدالت میں ان کا بھرپورمحاسبہ کریں۔ ریاست کی سالمیت کو خطرات سے بچانے کیلئے کپتان خود بھی ریاستی اداروں پربیجا تنقید کاسلسلہ بندکردیں اوراس کے ساتھ ساتھ انہیں ا پنے کارکنان کوبھی دوٹوک انداز سے روکنا ہوگا۔کپتان کوبزدار والے بدترین تجربے سے سیکھتے ہوئے اب عدالت عظمی کے چیف جسٹس (ریٹائرڈ)میاں ثاقب نثار،حامدخان اورمیاں اسلم اقبال سمیت اپنی جماعت کے بردبار افراد سے مشاورت کرناہوگی۔ 

مزیدخبریں