75 سال پہلے 1947ء میں دنیا کے نقشے پر ایک نظریاتی ملک آزاد ہوا جس کا نظریہ اُس مملکت کا قیام تھا جس کے تحت برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں ایک اسلامی ریاست کا قیام جو برصغیر پاک و ہند کو انگریز حکمرانوں اور یہاں کے اکثریتی آبادی ہند ؤوںکی مخالفت کے باوجود ممکن ہوا ۔ آج 75سالوں بعد بھی ہم پاکستانی یہ تعین نہیں کر سکے کہ ہمارے لئے کون سا نظام ٹھیک ہے اور کس نظام کے تحت ملک کی بھاگ دوڑ کو چلانا ہے ؟؟ 1947ء سے پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو کیا کچھ اِس مملکت کے ساتھ نہیں ہو ا اگر یہ کہا جائے کہ برصغیر پاک وہند میں 1947ء میں جو بھونچال آیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کا قائم عمل میں آیا ۔پاکستان کا المیہ یہ رہا کہ پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اِس دنیا فانی سے رخصت ہو گے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ خان لیاقت علی خان نے علاقائی حقیقت سے نظریں چُرا کر امریکہ یاترا کے لئے اُڑان بڑھ لی۔ دورہ امریکہ کے دوران کی جانے والی خاطر ومدارت کی قیمت آج تک ہم پاکستانی کسی نا کسی طور چکا رہے ہیں۔نوابزادہ خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کے ایوانواں میں میوزیکل چیئر کے کھیل کا آغاز ہوا کہتے ہیں کہ دن میں اگر ایک وزیر اعظم ہوتا تو رات میں کوئی دوسرا نام وزیراعظم کے طور پر عوام کو پتہ چلتا۔ جمہوریت تو یہاں پھل پھول نہ سکی مگر مارشل لاء کے ادوار فوجی آمروں کے زورِ باوز پرکافی طویل رہے۔ جنرل ایوب خان نے بھی اقتدار کے 9 سال گزار لئے۔ اِس دور میں گو کہ پاکستان میں ترقی کی شرح پاکستان کی اب تک کی تاریخ کی سب سے زیادہ رہی مگر ملک میں مسائل نے جنم لینے شروع کر دیئے جس میںمشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ ناانصافیاںیعنی اُن کی اکثریت کی نفی کی گئی۔ یہی وہ دور تھا جب ایک دوسرے پر کیچر اچھالنے کا رواج عام ہوا۔ اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔جنرل ایوب خان کے کارناموں میں ناقابل ِ فراموش کارنامہ ذو ا لفقار علی بھٹو جیسا لیڈر دینا ہے جس نے صحیح معنوں میں قوم کو سبز باغ دکھا کر کرپشن کی بنیاد رکھی۔
پھر جنرل ضیاء الحق اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ 90 دن کا کہہ کر پورے گیارہ سال اقتدار میں رہے۔ اُن کے دور میں وہ اَن ہونیاں ہوئیں جن کو پاکستان اور اِس کی عوام آج بھی بھگت رہے ہیں ۔ سب سے پہلے افغان جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا پھر امریکہ بہادر کو اِس علاقے میںمضبوط کرنا ۔ جنرل ضیاء الحق کے اسلام کے نظریے نے پاکستان میں ہر اُس کام کی بنیاد رکھی جو اسلام تو کیا بلکہ ہرمعاشرتی زندگی کے اُصولوں کے خلاف ہیں۔ منشیات ، کلاشنکوف کلچرل، مافیا سٹسم ، ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول ،قبضہ گروپ ، امریکی امداد کے نام پر ملک و قوم کو امریکہ بہادر کے پاس گروی رکھوا دیا وہ امداد پاکستانی قوم کے کسی کام نہ آئی مگر اِس ملک میں ایک ایسا طبقہ اُبھر کر سامنے آیا جس نے ناجائز ذرائع سے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیاساتھ میں صوبائیت لسانیت اور علاقائی نفرت کا بیج بویا اور اُس کی آبیاری بھر پور طریقے سے کی گئی ۔ایک اور المیہ رونما ہوا جسے اسلامی انتہا پسندی کہا گیا جس نے پاکستانیوں کو مختلف مذہبی فرقوں میںتقسیم کر دیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو ’’ تیرا میرا اسلام ‘‘کی روایت متعارف ہوئی۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بعد پھر ایک سلسلہ اقتدار کی باریوں کا آغاز ہوا جوصرف دو پارٹیوں اور دو خاندانوں تک محدود رہاجو اِن خاندانوں کی امارات میں تو اضافہ کرتا گیا اور پاکستان کا قومی خزانہ ورلڈ بنک ، آئی۔ایم۔ایف دنیا کے دوسرے مالیاتی اداروں کے مرہونِ منت ہو گیا ، اُن کی طرف سے قرضے اور امداد کے نام پر ملنے والی بھاری بھر کم قرضے پاکستانی خزانے اور عوام پر بوجھ بڑھاتے چلے گئے ۔
75 سال بعد بھی ہم مکمل آزاد نہیں ہیں بلکہ اب تو ہماری دنیا میںایک پہچان بھکاری کی ہو گئی ہے اور یہی ہے پاکستانی اقتدار کی تاریخی تلخ کہانیاں ۔
٭…٭…٭
آزادی کے پچھتر(75 )سال
Aug 17, 2022