سوچتا ہوں کیا ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیلا بْغض کا یہ مرض اخلاقی اقدار کی پامالی میں ان انتہاؤں کو بھی چْھو لے گا کہ زندہ کرداروں پر تبرہ بازی میں سبقت لیجانے کی دوڑ میں تمام حدیں تو ہم پہلے ہی پھلانگ چکے اب ہم ذلالت کی ان انتہاؤں تک بھی پہنچ جائینگے کہ اس کھیل میں ہم اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو بھی اس گندی سیاست کی نظر کر دینگے۔
بلاشبہ اسکا اس خاکسار سمیت شائد ہی کبھی کسی پاکستانی نے تصور بھی کیا ہو لیکن وقت کے جبر کے ہاتھوں گزشتہ ہفتہ ان گنہگار آنکھوں نے مردہ ضمیروں کا یہ گھناؤنا فعل بھی دیکھ لیا جب سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار اپنے ملک کے غریب اور بے بس لوگوں کی مدد اور داد رسی کے آپریشن کی نگرانی کے دوران فوج کی سپریم کمانڈ کے کچھ لوگ ایک حادثہ کا شکار ہو گئے تو ان لوگوں نے اسے بھی سیاست کی نذر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اہلِ فکر کی بات چھوڑیں اب یہ میرے جیسے ایک اوسط درجہ ذہن کے آدمی کے سوچنے کی بھی بات ہے کہ اس سے گہری اور کونسی کھائی ہو گی جس میں ابھی ہم نے مزید گرنا ہے۔اپنے کئی کالموں میں یہ خاکسار لارڈ میکالے کی اس سوچ کا پہلے بھی حوالہ دے چکا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ‘‘ میں نے پورے برصغیر پاک و ہند کا طویل سفر کیا ہے مجھے اس پورے خطے میں ایک بھی چور اور جھوٹا شخص نہیں ملا۔ یہاں کا ہر شخص اپنی روایات سے جوڑا ہوا ہے اور اگر ہم اس ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان لوگوں کو انکی روایات سے دور کرنا ہو گا‘‘
انتہائی افسوس اور معذرت کے ساتھ تبدیلی کے نام پر روایات سے فرار کا یہ سفر خلفشار ذہنیت کے مالک کچھ لوگوں کو جس مقام پر لے آیا ہے اس بارے جو الفاظ اس وقت میرے قلم کی نوک پر تیر رہے ہیں ا نہیں اگر ضبط تحریر میں لے آؤں تو شائد نہیں بلکہ یقیناً ان ٹرولر کا اصل چہرہ لوگوں کو دکھانے میں بڑی مدد ملے کہ یہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بطور ایک لکھاری صحافت کے آداب مجھے اسکی اجازت نہیں دیتے۔ یقین جانئیے آج ضبط کے تمام بندھن ٹوٹتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی با امر مجبوری صبر کا دامن نہیں چھوڑ رہابلاشبہ کچھ دوست ان لوگوں کے اس فعل کو ناسمجھی اور کچھ دوست جہالت سے تعبیر کرینگے لیکن راقم سمجھتا ہے کہ اصل حقیقت ان دونوں باتوں سے آگے نکل چکی ہے اصل قصہ یہ ہے کہ یہ گمراہ لوگ ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن کر فساد برپا کرنے پر تْل چکے ہیں اور اپنے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
کہتے ہیں لاتوں کے بْھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ فرط جذبات سے مغلوب مزید کچھ لکھنے کیلیئے اپنے ذہن کو تیار کر ہی رہا تھا کہ اس دوران میرا ہمزاد آوارد ہوا اور مجھ سے کچھ یوں گویا ہوا کہ اپنے آپ پر کْڑھنے کی بجائے ان لوگوں کی تْم اللہ سے شکایت کیوں نہیں کرتے۔ ہمزاد کی تجویز پر ان لوگوں کی شکایت لگانے میں نے اللہ کے گھر کا رْخ کیا تو وہاں پر اس پوسٹ کی عملی تصویر دیکھی جو فیس بْک پر ہمارے ایک دوست زاہد صدیقی نے لگائی ہوئی ہے جو کچھ اسطرح ہے کہ لوگوں کا ستایا ہوا مسجد گیا تاکہ اپنے رب سے ان لوگوں کی شکایات کروں لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ ہے سب تو پہلی صفوں کے نمازی تھے۔
ان پہلی صفوں کے نمازیوں کے اصل کردار پر جب نظر ڈالیں تو ذہن ماؤف ہو جاتا ہے اور کچھ کہنے کیلئے الفاظ معدوم ہو جاتے ہیں۔ یقین جانیے اسی قسم کی صورتحال سے اس وقت یہ خاکسار بھی دوچار ہے اور اسکے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا کہ کالم کو آگے بڑھانے کیلئے کچھ کہاوتوں اور مقولوںکا سہارا لیا جائے۔
ترک کہاوت ہے ‘‘ اگر آپ لومڑی سے دین سیکھیں گے تو دھیرے دھیرے یہ ماننے لگیں گے کہ مرغیاں چرانا ایک نیکی ہے ’’۔ حالیہ دنوں جو سیاسی منظرنامہ اْبھرا ہوا ہے اور جس قسم کی زبان بازی ہو رہی ہے اسکے ساتھ ساتھ جب ان چند ضمیر فروشوں کے ٹویٹس اور انکی ہرزہ سرائی پر ایک نظر ڈالی جائے تو کسی بھی ذی شعور کے لیے یہ سمجھنے میں قطعی طور پر مشکل پیش نہیں آئے گی کہ یہ عقل کے اندھے کونسے قبلہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انھوں نے کس سکول آف تھاٹ سے جنم لیا ہے اور انکے اصل امام کون ہیں اور وہ امام کس کردار کے مالک ہیں۔
کردار کی بات چل نکلی تو اس حوالے سے 1918ء میں امریکہ کی ریاست شمالی کیلیفورنیا میں جنم لینے والے عیسائی مبلغ کے طور پر عالمی شہرت رکھنے والے ایک شخص’’بلی گراہم‘‘ جسکا پورا نام ولیم فرانکلن گراہم ہے اسکے ایک قول کی طرف آپکی توجہ مبذول کروانا چاہونگا۔ وہ کہتا ہے کہ:
’’ جب دولت ختم ہو جائے تو کچھ ختم نہیں ہوتا۔ جب صحت ختم ہو جائے تو پھر بھی کچھ ختم نہیں ہوتا لیکن جب کردار ختم ہو جائے تو پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ‘‘
بس یہی ایک المیہ ہے جسکا آج میری قوم اور میرے وطن عزیز کو سامنا ہے اور جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ فکر کے دروازے کھولیں اور غور کریں کہ یہ کردار کا بحران کیسے پیدا ہوا تو ہم پھر اسی نکتہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ جب سے ہم نے اپنی روایات اور اخلاقی اقدار سے دوری اختیار کی اس دن سے اس بربادی نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔
اسی ہفتے ہم نے اپنی آزادی کی 75ویںسالگرہ منائی ہے۔ کالم کے اختتام پر صرف ایک سوال کہ کیا پچھتر سال کا ہمارا یہ آزادی کا سفر ہمیں ہماری ترقی کی داستان سناتا ہے یا ہماری بربادی کی عملی تصویر دکھائی دیتا ہے،بس ہم میں سے ہر پاکستانی کے سوچنے کا یہی ایک نکتہ ہے۔ اگر سمجھ گے نہیں تو اس سے مزید بربادی کیا ہو گی کہ جن شہیدوں کو ہمارے ماتھے کا جھومر ہونا چاہیئے تھا انکی شہادت پر ہم نے سوالیہ نشان لگا دیے۔
٭…٭…٭