انڈین آرمی کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا تھا۔ عالمی جنگ کے دوران اس نے اپنی بہادری کا لوہا منوایا تھا۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد فوج کی تقسیم ایک انتہائی حساس اور مشکل مرحلہ تھا۔ سر اکن لیک کو بھارت اور پاکستان کی فوج کا سپریم کمانڈر نامزد کیا گیا۔ فوج اور عسکری اثاثوں کی تقسیم کا کام یکم اپریل 1948 ء تک مکمل کیا جانا تھا۔ قوانین کے تحت مشترکہ دفاعی کونسل کے حکم کے بغیر افواج نقل و حرکت نہیں کر سکتی تھیں۔
( چوہدری محمد علی: ایمرجینس آف پاکستان)۔
قائد اعظم ہندوستان کے دفاعی نظام میں خصوصی دلچسپی لیتے رہے وہ اس ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کے چیئرمین تھے، جسے ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔قائداعظم متحدہ ہندوستان کے دفاعی نظام اور کمانڈ سٹرکچر سے پوری طرح آگاہ تھے، ان کو علم تھا کہ آزادی کے بعد پاکستان کی فوج کی تنظیم و تربیت کے لیے تجربہ کار فوجی افسروں کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے ٹرانسفر آف پاور کے قواعد و ضوابط طے کرتے وقت تسلیم کرا لیا تھا کہ سینئربرطانوی فوجی افسر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان میں خدمات انجام دیں گے۔ متحدہ ہندوستان کی کل فوج چار لاکھ تھی جس میں سے ایک لاکھ 40 ہزار فوج پاکستان کے حصے میں آئی جن میں سے کرنل سے میجر جنرل تک مسلمانوں کی تعداد صرف 56 تھی۔ 500 انگریز فوجی افسروں کو پاکستانی فوج میں شامل رکھا گیا۔ (آئن سٹیفن ۔ پاکستان)۔
قائداعظم کو بخوبی اندازہ تھا کہ برطانوی ہندوستان میں مسلمان فوجی اور سول افسروں کی مخصوص ذہنیت سوچ اور فکر پروان چڑھی تھی جو ایک آزاد ریاست کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اعلانِ آزادی کے بعد ان کو کئی مواقع پر اس مخصوص ذہنیت کا عملی مشاہدہ بھی ہوا۔سر اکن لیک کے پرائیویٹ سیکرٹری شاہد حامد نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے قائداعظم کے دہلی سے پاکستان آنے سے چند دن پہلے اپنے گھر پر ایک استقبالیہ کا انتظام کیا جس میں فوجی اور سول افسران اور سیاستدان شریک ہوئے۔ قائداعظم بہت خوش تھے۔
ایک مسلمان فوجی افسر نے یہ سوال کر کے قائد اعظم کو رنجیدہ کردیا کہ ’’پاکستان میں ہماری پرموشن کا کیا ہوگا۔‘‘ قائداعظم نے فوجی افسر کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا ’’آپ مسلمان یا تو آسمانوں سے باتیں کرتے ہو یا دھم سے نیچے گر پڑتے ہو۔ آپ متوازن راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ تمام پرموشن اپنے وقت پر ہوں گی اور پاگل پن سے جلد بازی نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہوگی۔ جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتا ہے اس کو پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔
(شاہد حامد :Disastrous Twilight )
ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق چودہ اگست 1947 ء کو ایک استقبالیہ کے دوران ایک فوجی افسر کرنل اکبر خان نے قائد اعظم سے کہا کہ برطانوی افسروں کی بجائے مسلمان افسروں کو ترقی دے کر کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے۔
قائد اعظم نے اس افسر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو تم پالیسی نہیں بناتے ہم عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے، تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے۔‘‘ قائد اعظم نے پاکستان ڈیفنس کونسل کی منظوری دی جس کا ایک اجلاس 5 ستمبر 1947 ء کو ہوا اس اجلاس میں پاک فوج کی اندرونی اور بیرونی ذمہ داریوں کی منظوری دی گئی۔
افواج پاکستان کی ایک ذمہ داری امن و امان کے قیام کے لیے سول حکومت اور پولیس سے تعاون کرنا تھا- افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں حکومت کے سیاسی انتظامی افسروں کی معاونت اور سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ چھوٹی طاقتوں کے حملوں کو روکنا بڑی طاقتوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کی تیاری کرنا پاک فوج کے فرائض میں شامل تھا۔ (شوکت ریاض: دی پاکستان آرمی)۔
قائداعظم نے 14 جون 1948 ء کو سٹاف کالج کوئٹہ کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو حلف اٹھایا ہے اس پر عمل کرنا آپ کا فرض ہے۔ قائد اعظم نے اس موقع پر حلف کی عبارت بھی پڑھ کر فوجی افسروں کو سنائی اور ان کو تاکید کی کہ وہ کبھی بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اس حلف میں یہ عبارت شامل تھی کہ میں آئین اور مملکت پاکستان کا وفادار رہوں گا۔ 1948 ء میں بریگیڈئیر رینک کے دو افسروں نے قائد اعظم سے ملاقات کی خواہش کی۔ قائد اعظم نے ان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا اور ان کو ہدایت کی کہ وہ فوجی امور کے سلسلے میں آرمی چیف سے ملاقات کریں۔
( گل حسن :یاد داشتیں)۔
جنرل ایوب خان کی ذمہ داری مہاجرین کی بحالی اور ریلیف پر لگائی گئی تھی۔ سردار عبدالرب نشتر جو وفاقی وزیر کی حیثیت سے مہاجرین کی ریلیف اور بحالی کے انچارج تھے انہوں نے جنرل ایوب کی فائل پر لکھا یہ افسر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کی بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ قائداعظم نے اس کی فائل پر یہ نوٹ لکھا : ’’میں اس افسر کو جانتا ہوں وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘‘ (اسلم منہاس: پالیٹکس اینڈ دی آرمی ڈان 10 نومبر 2002 ئ)
جب بھارت نے کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارتی فوجی روانہ کیے تو قائداعظم نے پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ پاکستان کے فوجیوں کو کشمیر میں داخل کر کے بھارتی افواج کی مداخلت کو روکے مگر جنرل گریسی نے قائد اعظم کے ان احکامات پر عمل نہ کیا اور بھارت اور پاکستان کے مشترکہ کمانڈر جنرل اکن لیک نے لاہور میں قائد اعظم سے ملاقات کرکے ان کو مطمئن کیا کہ بھارت اور پاکستان میں شامل برطانوی فوجیں آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ( قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل: علم و عرفان پبلشرز لاہور ) ۔ ہمیں آج قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں نظم و نسق سے متعلق پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد اعظم کے ارشادات ملحوظ خاطر رکھیں
Aug 17, 2022