پنجاب پولیس اور بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ
بیوروکریسی ہو یا پولیس ان کے تبادلے اور تقرر کا اختیار حکمرانوں کو حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس تقرر و تبادلے کو ذاتی شوق یا انا کے تابع نہ کیا جائے۔ بزدار حکومت اور موجودہ پنجاب حکومت نے تو بیوروکریسی اور پولیس کے محکمہ کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ سیاسی دبائو سفارش اور ناپسندیدگی کی بنیاد پر لگتا ہے کوئی ڈرامہ سیریز چل رہی ہے۔ یا لگتا ہے کوئی چرواہا بکریوں کے ریوڑ کو ہانک رہا ہے۔ ابھی ایک تبادلے کے بعد افسران نے اپنا بوریا بستر کھولا نہیں ہوتا کہ پھر تبادلے کی خبر آ جاتی ہے۔ یوں موصوف اگلی منزل کی طرف نئے سفر کی تیاری کرتے ہیں۔ اس طرح سرکاری کام کاج ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ بیوروکریسی اور پولیس والوں کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نجانے اب اگلی منزل کونسی ہو گی۔ پوری دنیا میں تقرر و تبادلے اصول اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں حکومتوں کی تبدیلی ان پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ایک حکومت کے حکم پر کام کرنے والوں کو دوسری حکومت آتے ہی راندۂ درگاہ بنا دیتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے لگائے افسران کو دوسری حکومت بدل دے گی۔ یوں تختہ مشق بننے والے افسران سرکاری کام کاج سے جان چھڑانے لگتے ہیں اور عوامی کام اور دفتری امور ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ افسران اپنی صلاحیت سے محنت سے یہاں تک پہنچتے ہیں سب ہی سفارشی ٹٹو نہیں ہوتے۔ ان سے کام لینے کا ہنر حکمرانوں کو آنا چاہیے۔ وہ حکم کے پابند ہوتے ہیں۔ یوں اکھاڑ پچھاڑ کے نام پر تذلیل کا سلسلہ جو پنجاب میں عروج پر ہے کو کنٹرول کرنا ہو گا تاکہ سرکاری افسران اطمینان سے اپنے کام سرانجام دے سکیں۔
٭٭٭٭٭
بھارتی خصوصی طیارے کی پاکستان آمد 12 مسافر لے کر دبئی چلا گیا
لگتا ہے بھارتی طیاروں کو کراچی ائیر پورٹ سے عشق ہو گیا ہے۔ جبھی تو کبھی ایندھن کی کمی کبھی طیارے میں خرابی کبھی مسافر کی بیماری اور کبھی کبھی تو یونہی کراچی ائیر پورٹ دیکھنے وہاں کی سیر کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بھارتی طیارہ کراچی ائیر پورٹ پر آن دھمکتا ہے۔ بظاہر اس میں کوئی بری بات نہیں مگر اندرون خانہ ہزاروں باتیں عوام میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مخالف تو ا س کے ڈانڈے بھارت دوستی سے لے کر ڈالروں کی سمگلنگ تک سے جوڑتے ہیں جو نہایت تعجب خیز ہے۔ اب گزشتہ روز تو ایک نئی کہانی سامنے آئی ہے۔ بھارتی حیدر آباد (دکن) سے ایک طیارہ کراچی ائیر پورٹ پر آیا اور وہاں سے 12 مسافروں کو لے کر دوبئی روانہ ہوا۔ یہ مسافر کون تھے بھارتی طیارہ انہیں کیوں لینے آیا یہ ایک معمہ ہے۔ اس کو حل کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے ورنہ لوگ تو فسانے تراشیں گے۔ اگر یہ چارٹرڈ فلائٹ تھی تو بھی بتایا جائے کہ بھارت سے کسی طیارے کو ایسے فلائٹ آپریشن کی اجازت ہے۔ ورنہ کسی عالمی پرواز سے یہ مسافر کراچی سے جہاں جی چاہتا جا سکتے تھے۔ بھارت کو ایسی کوئی رعایت یا اجازت نہیں ہے۔ اگر حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو یہ سب کچھ بہت عجیب لگتا ہے۔ فی الحال پاکستان ا ور بھارت کے درمیان تعلقات اتنے بھی اچھے نہیں کہ بنا اجازت کے کوئی طیارہ ہمارے ہاں آئے یا ہمارا طیارہ مان نہ مان میں تیرا مہمان کہتے ہوئے وہاں تشریف لے جائے۔ اس بارے میں مکمل وضاحت کرنی ضروری ہے کہ اصل کہانی کیا ہے تاکہ لوگوں کے منہ بند ہوں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان 2025ء تک خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔ شیری رحمان
یہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے مگر کیا مجال ہے جو کسی حکومت پر اثرہوا ہو۔ یہ خبر صرف عوام کو ہی سنانے اور ڈرانے کے لیے نہیں حکمرانوں کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے صور اسرافیل کا کام انجام دے رہی ہے۔ عوام نے تو جا کر ڈیم نہیں بنانے۔ آبی ذخائر تعمیر نہیں کرنے۔ وہ تو خاموشی سے اربوں روپے ٹیکس دے رہے ہیں اس کام کے لیے تربیلا، منگلا، وارسک بن چکے۔ اب اس کے بعد نذر نیاز اور خیرات و عطیات دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے مانگے جا رہے ہیں۔ چاچا رحمتے نے تو کئی ارب روپے جمع کئے مگر ڈیم کی ایک اینٹ بھی نہیں لگی۔ کالا باغ ڈیم کے نام پر بہت سے قوم پرست سیاستدانوں کو موت آتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں کالا پانی بھیجنے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر صرف وہ ہی بنا ہوتا تو 2025ء تو کیا 2050ء تک ہمیں قلت آب یا خشک سال کا کوئی خطرہ نہ ہوتا۔ مگر اس آسان اور تیار منصوبے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی بس رونا رویا جاتا ہے کہ 2025ء تک ہم خشک سالی کا شکار ہو جائیں گے۔ حکمرانوں کو دیگر ڈیم بنانے سے کس نے روکا ہے۔ پاکستان میں درجنوں مقامات ایسے ہیں جہاں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ سیلابی پانی یا اضافی پانی کو جمع کرنے سٹور کرنے کے منصوبوں پر کام کیوں شروع نہیں ہوتا۔ رونے دھونے سے کچھ نہیں ہونا کام کرنا پڑتا ہے جو کرنے کے کام ہیں وہ کریں۔ صرف واویلا کرنے سے کوئی کام نہیں ہوتا۔
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
ورنہ 2025ء کے بعد ایک ایک بوند پانی کے لیے انسان انسان سے لڑ رہا ہو گا۔ صوبے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں گے۔ تب جو کچھ ہو گا اس سے بچنا ضروری ہے ورنہ ہمارا حال بھی افریقہ والا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
ایشیا کپ 2022ء پاکستان اور بھارت کرکٹ میچ کے ٹکٹ اڑھائی گھنٹے میں فروخت
28 اگست کو دبئی میں کرکٹ کی دو بڑی حریف ٹیمیں پاکستان اور بھارت دبئی سٹیڈیم میں ایشیا کپ کے لیے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں گی۔ ہمیشہ کی طرح یہ میچ دیکھنے کے لیے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش کے کروڑوں لوگ ٹی وی سکرینوں سے چپک جائیں گے اور ہزاروں شائقین براہ راست سٹیڈیم میں یہ میچ دیکھنے کے لیے موجود ہوں گے۔ گزشتہ روز ا س میچ کے ٹکٹ فروخت کے لیے پیش ہوئے تو صرف اڑھائی گھنٹے میں سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ یوں ہزاروں لوگ لائن میں لگنے اور طویل انتظار سہنے کے باوجود بھی ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین جانتے ہیں کہ یہ میچ کم اور میدان جنگ زیادہ نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے گویا دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ ایسا کسی اور میچ میں نہیں ہوتا۔ کھیلوں کے میدان میں ہاکی ہو یا کرکٹ، ریسلنگ ہو یا کبڈی کسی بھی جگہ کسی بھی میچ میں جب پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہوں تو اس کو دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اس لیے طبی ماہرین بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کو یہ میچ دیکھنے سے احتیاطاً منع کرتے ہیں۔ ہار جیت اپنی جگہ اصل بات مقابلے کی ہوتی ہے۔ ہر ایکشن پر ہر قدم پر پورا میدان تماشائیوں کے نعروں سے گونج رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے عالمی میچ دیر تک یاد رکھے جاتے ہیں۔
٭٭٭٭
بدھ ‘ 18 محرم الحرام، 1444ھ، 17اگست 2022 ء
Aug 17, 2022