اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سندھ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے حلقہ بندیوں کیخلاف ایم کیو ایم کی دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی صوبائی حکومت کا اختیار ہے، صوبائی قانون پر عملدرآمد کے دوران کچھ سقم نظر آ رہے ہیں، کیا الیکشن کمیشن سقم نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے حلقہ بندی کرسکتا ہے؟۔ بعض یونین کمیٹیوں کی آبادی میں فرق سو فیصد سے بھی زیادہ ہے، عدالت صرف سقم کی نشاندہی کر سکتی ہے قانون تبدیل نہیں کر سکتی، الیکشن کمشن اتنا ہی کام کر سکتا ہے جتنا اسے اختیار ہو، کے پی کے کے قانون میں یونین کمیٹیوں کی تعداد کیلئے طریقہ کار درج ہے۔ ایم کیو ایم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت نے کمیٹیوں کی تعداد کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا، اورنگی ٹاون کی سات لاکھ آبادی پر میئر کے لیے 7 جبکہ مومن آباد کی 4 لاکھ آبادی پر 9 ووٹ مختص ہیں، سندھ حکومت کی اس سے بڑی دھاندلی اور کیا ہو گی، میرے دلائل جسٹس منصور علی شاہ کے ایک فیصلے پر منحصر ہیں۔ کراچی سے بلا مقابلہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت نے قانون میں بلدیاتی اداروں کا ڈھانچہ بنایا ہے، کیا الیکشن کمشن حلقہ بندی کے ذریعے ڈھانچہ تبدیل کر سکتا ہے؟۔ حلقہ بندیاں ریاضی کے اصول کے تحت نہیں کی جاسکتیں، ایم کیو ایم کی دلیل مان لی جائے تو پورے ملک کی صوبائی و قومی اسمبلی کی حلقہ بندیاں متاثر ہو جائیں گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ حلقہ بندی کا اختیار ایک شق میں الیکشن کمشن دوسری میں حکومت کو ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا عدالت کو صرف یہ واضح کر دیں کہ سندھ حکومت نے حد بندیاں کس بنیاد پر کی ہیں، اگر حد بندی شفاف ہو تو حلقہ بندیاں متنازعہ نہیں ہوں گی۔ ممبر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اس عدالت کو بتایا کہ میں پانچ مرتبہ بدین سے منتخب ہوئی ہوں، ٹھٹھہ بدین کا بہت برا حال ہے، ٹھٹھہ بدین سے منتخب ہونے کے باوجود میرا ووٹ وہاں سے کراچی منتقل کر دیا گیا۔ عدالت عظمٰی نے انہیں آئندہ کل سننے کا کہتے ہوئے معاملہ کی سماعت آج 17 اگست تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
حلقہ بندیاں