سرکاری دفاتر میں ایک ہزارمیگاواٹ تک کے سولر پاور پلانٹس لگائے جائینگے  

اسلام آباد(آئی این پی)آئندہ 10 سالوں میں سرکاری دفاتر میں ایک ہزارمیگاواٹ تک کے سولر پاور پلانٹس لگائے جائیں  گے۔  300 ارب روپے کی لاگت سے 30 ہزارٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے کا ہدف،سرکاری عمارتوں کو سولرائز کرنے سے پاکستان میں توانائی کے بحران میں کمی آئے گی، قائداعظم سولر پاور پارک سے 400میگا واٹ بجلی کی پیداوار جاری۔سرکاری عمارتوں کو سولرائز کرنے کے فیصلے سے پاکستان میں توانائی کے بحران میں کافی حد تک کمی آئے گی۔
 توانائی کا بحران ملک میں ترقی کے عمل میں رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ سرکاری دفاتر، نجی شعبے، مکانات اور دکانوں کو اپنے روزمرہ کے امور چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اوربجلی کی کمی تمام شعبوں کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان کو تقریبا 20 سال سے توانائی کی کمی کا سامنا ہے۔ محدود ہائیڈرو پاور پلانٹس تمام صارفین کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک میں کئی پرائیویٹ پاور پلانٹس لگائے گئے ہیں لیکن ایندھن کی بلند قیمتوں کے باعث وہ ملک کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک میں توانائی کے بحران نے حکام کو سرکاری دفاتر کو سولرائز کرنے کی ترغیب دی ہے۔ وفاقی سیکرٹری ہاوسنگ اینڈ ورکس افتخار علی شالوانی نے کہاکہ سرکاری دفاتر کی سولرائزیشن ملک کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر اور چھوٹے صارفین کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے لیے قلیل مدتی منصوبے کی تیاری جاری ہے ۔انہوں نے کہا کہ پائیدار اور سبز توانائی کو فروغ دینا وزیراعظم کا وژن ہے۔ وزیراعظم نے سولر انرجی سے متعلق ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جس میں وفاقی وزرا، وفاقی سیکرٹریز اور صوبوں کے چیف سیکرٹریز شامل ہیں۔ ان کوششوں کا مقصد بجلی کے نرخوں کو کم کرنا اور مہنگائی کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ملک میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاور پلانٹس کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ آئندہ 10 سالوں میں سرکاری دفاتر میں 1000 میگاواٹ تک کے سولر پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔ ملک میں ٹیوب ویلوں کو بھی سولرائز کیا جائے گا۔ حکومتی فنڈنگ سے بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ حکومت 300 ارب روپے کی لاگت سے 30 ہزارٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے کا ہدف بنا رہی ہے۔ افتخار علی نے کہا کہ پاکستان کو دنیا میں انسولیشن کی چند اعلی اقدار سے نوازا گیا ہے جہاںروزانہ آٹھ سے نو گھنٹے دھوپ ہوتی ہے جو شمسی توانائی کی پیداوار کے  موسمی حالات کے لیے موزوں ہیں۔ پاکستان نے چولستان کے صحرا میں اپنا سب سے بڑا سولر پاور پارک قائداعظم سولر پاور پارک بنایا ہے جس میں ایک گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور 400 میگا واٹ پہلے سے ہی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ پلانٹ 7 لاکھ 25ہزارگھرانوں کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ نے بھی پبلک سیکٹر کی عمارتوں کی سولرائزیشن کی حمایت کی ہے اور اس اقدام میں نجی شعبے کو شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ سولرائزیشن سے حکومت کو پیسہ بچانے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں میں بجلی کی ترسیلی لائنیں اور واپڈا کے دفاتر موجود ہیں لیکن صارفین کو بجلی فراہم نہیں کی جاتی۔ عوام دو سے تین دن کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ ان علاقوں میں وولٹیج بھی بہت کم ہے۔ ان دیہات کے تقریبا 85 فیصد رہائشیوں نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں اور دکانوں پر سولر پینل لگائے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن