17اگست … جنرل ضیاء کی یادیں

جنرل ضیاء الحق 12اگست 1924؁ء میں جالندھر کے ایک متوسط پابند صوم وصلوۃ گھرانے میں پیداہوئے۔اُن کے والدکو اسلام سے بے حد لگائو تھا اُن کو دینی تعلیم گھر پر ہی صاف ستھرے ماحول میں حاصل ہوئی اسلئے بچپن ہی سے نماز اور روزہ کے سختی سے پابندتھے۔مئی 1943؁ء میں اُن کو فوج میں باقاعد ہ کمیشن ملا اور اُنہوں نے برما، ملایا اور جارامیں جاکر دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ 1955؁ء میں سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کیا اور 1965؁ء اور 1971؁ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔ اعلیٰ کارکردگی کے باعث اُن کو 1969؁ء میں بریگیڈیئرکے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔1975؁ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر اور یکم مارچ 1976؁ء میں اُنہیں جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر چیف آف سٹاف مقرر کیاگیا۔ اُس وقت  حکومت کے خلاف سیاسی تحریکیں زوروں پر تھیں ۔سیاسی حالات بہت خراب ہوگئے تھے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور حکومت کے خلاف جلسے اور جلوسوں کا زور تھا۔مظاہرین میں خانہ جنگی کا ساعالم تھا۔ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر جنرل محمد ضیاء الحق نے چیف مارشل لا ء ایڈ منسٹر یٹر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈورسنبھالی جسکی وجہ سے ملکی استحکام پیداہوا۔معیشت میں ترقی ہوئی۔ صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خوراک کے معاملہ میں آگے چل کر ملک خود کفیل ہوگیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ایک موقع پر اُنہوںنے کہاتھا کہ اگر مسلح افواج تھوڑا عرصہ مزید اقتدار نہ سنبھال لیتی تو خانہ جنگی سے بھی زیادہ لوگوں کا بُرا حال ہوتا۔ اُن کے مطابق حکمرانوں کی زندگیاں پاکیزگی، طہارت اور خوفِ خدا سے لبریز ہونی چاہئیں تاکہ عوام ان سے گہرا ثر قبول کریں۔ وہ اسلام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بے حد خواہشمند تھے۔ مغربی ممالک اسلام میں ہاتھ کاٹنے کی سزائوں کو وحشیانہ اورپس ماندہ نظام کہتے تھے ۔ سعودی عرب کی مثال دے کر وہ کہاکرتے تھے کہ وہاں چوری کے اکا دُکا واقعات ہوتے ہیں اور دکانیں نماز کے وقت کھلی رہتی ہیں مگرچوری چکاری کا ڈر نہیں ہوتا۔ اُسکے برعکس امریکہ میں ایک دن بجلی بندہونے سے لاکھوں چوری کے واقعات ہوتے ہیں۔ 16ستمبر 1978؁ء کو  محمد ضیاء الحق نے چھٹے صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھایا ۔ 8فروری 1979؁ء کو چاروں صوبوں میں شرعی بینچ قائم کئے اور 10فروری کو اسلامی قوانین کے نفاذ اور زکوٰۃ و عشر کا نظام قائم کرنے کا اعلان کیا۔ 26مئی 1979؁ء کووفاقی شرعی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیاگیا اور 25ستمبر 1979؁ء کو 
پندرہ سال کے طویل عرصہ کے بعد بلدیاتی نظام بحال کرکے انتخابات کرائے گئے ۔ 20جون 1980؁ء کو زکوٰۃ وعشر کاآرڈر یننس نافذ کیاگیا اور یکم جنوری 1981؁ء کو بلا سود بنکاری کا نظام قائم کرکے کاونٹر کھولے گئے ۔ دوسرے بلدیاتی انتخابات ستمبر ۔اکتوبر 1983؁ء میں کرائے گئے۔ جبکہ تیسرے بلدیاتی انتخابات نومبر 1987؁ء میں مکمل کرائے گئے۔ 19ستمبر 1984؁ء میں اسلامی نظام کے بارے میں ریفرنڈم کرایا گیا اور اِس طرح مزید پانچ سال کیلئے جنرل ضیاء الحق کو بطور صدر پاکستان چُن لیاگیا۔ 25فروری 1985؁ء کو قومی اسمبلی کے اور 28فروری کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے۔ 20مارچ 1985؁ء میں 1973؁ء کے آئین میں ترمیم اور محمد خان جو نیجو کو  وزیر اعظم منتخب کیاگیا۔ جنہوںنے 23مارچ 1985؁ء کو وزیراعظم کا حلف اُٹھایا۔ یکم جولائی کو سودی نظام ختم کردیاگیا۔ 8ستمبر 1985؁ء کو قومی اسمبلی میں آٹھویں آئینی ترامیم کا بِل پیش ہوا جسے 8اکتوبر کو قومی اسمبلی نے اور 31اکتوبر کو سینٹ نے منظور کرکے مارشل لاء کے تمام اقدامات کو آئینی شکل دے دی ۔30دسمبر 1985؁ء کو مارشل لا ء اُٹھالیا گیا۔ صدر محمد ضیاء الحق نے جنرل اسمبلی میںپہلی دفعہ تلاوت کراکے اسلامی اقدا ر کو اُجاگر کیا۔ اسلامی کانفرنس میں شرکت کی ۔  27دسمبر کو سویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو اُنہوں نے ببرک کارمل کی حکومت کو باوجود دبائو کے ٹھکرا دیا۔ جار حانہ مداخلت کے خلاف احتجاج کرکے رائے عامہ ہموار کی ۔ اسلامی دُنیا کے ممالک سے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مہاجرین کی آمد سے نہ گھبرائے اور اس سلسلہ میں 23مارچ 1980؁ء کو تمام سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات کرکے اُن کی حمایت حاصل کی۔ حج کے معاملات میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ پنجاب اور شمالی علاقوں کے لوگ پہلے کراچی ائرپورٹ سے سفرِ حج شروع کیا کرتے تھے اُن کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے راولپنڈی کے قریب موضع سہام کے مالکان سے بذریعہ سی ڈی اے زمین حاصل کرکے 32ایکڑ کے وسیع رقبہ میں ایک عالیشان حاجی کیمپ صرف 8ماہ کی مدت میں تعمیر کرایا اور 1986؁ء سے کراچی کے علاوہ اسلام آباد سے بھی حج پروازوں کا اجراء ہوا۔ اسلام آباد کے حاجی کیمپ کا نام مدینتہ الحجاج اور کراچی کے حاجی کیمپ کانام بیت الحجاج رکھا۔ مدینتہ الحجاج میں ایک عالیشان مسجدکثیر سرمایہ سے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ نہ صرف پاکستانی حجاج بلکہ چینی حاجیوں کی خدمت کرکے بھی اُن کو خوشی حاصل ہوتی تھی جو پاکستان کے راستے حج بیت اللہ کو جاتے تھے۔ حاجیوں کی تربیت کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور سرکاری طورپر تربیت کاانتظام کراتے تھے۔ 29مئی 1988؁ء کو مسلم لیگ حکومت کو ختم کردیا گیا۔ اُن کو کئی بار محتاط رہنے کیلئے کہا گیا مگروہ صحیح العقیدہ مسلما ن تھے اور کہتے تھے کہ موت کا ایک دن متعین ہے اُن کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر زیادہ بھروسہ تھا۔جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کی تاریخ 16نومبر 1988؁ء مقرر کر دی تھی ۔ جنرل ضیاء الحق 11سال 43دن مکمل کرنے کے بعد 17اگست 1988؁ء کو ڈیوٹی کے دوران بہاولپور کے قریب طیارے  حادثہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ پوری قوم کو سوگوار چھوڑگئے۔ اُن کو پورے اعزاز کے ساتھ شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیاگیا۔ اُن کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے مذہبی ،ملکی ،غیر ملکی مقتدرشخصیات کے علاوہ پوری قوم اسلام آباد کی طرف سیلاب کی طرح اُمڈ پڑی۔  ضیاء  دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مضبوط ہوئی  اسلامی اور مغربی ممالک کے قریب تررہی ۔افغان پالیسی کو اسلامی دُنیا میں بہت سراہاگیا۔ کشمیر کی تحریک آزادی کو زندہ کرکے اُس میں نئی روح پھونکی اور پڑوسی ملکوں میں آزادی کی مختلف تحریکوں کو بے حد تقویت ملی۔ جنرل  ضیاء الحق کی برسی ہر سال 17اگست کو بڑی عقیدت سے منائی جاتی ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن