جنرل ضیاء الحق 12اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک متوسط پابند صوم وصلوۃ گھرانے میں پیداہوئے۔اُن کے والدکو اسلام سے بے حد لگائو تھا اُن کو دینی تعلیم گھر پر ہی صاف ستھرے ماحول میں حاصل ہوئی اسلئے بچپن ہی سے نماز اور روزہ کے سختی سے پابندتھے۔مئی 1943ء میں اُن کو فوج میں باقاعد ہ کمیشن ملا اور اُنہوں نے برما، ملایا اور جارامیں جاکر دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ 1955ء میں سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کیا اور 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔ اعلیٰ کارکردگی کے باعث اُن کو 1969ء میں بریگیڈیئرکے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔1975ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر اور یکم مارچ 1976ء میں اُنہیں جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر چیف آف سٹاف مقرر کیاگیا۔ اُس وقت حکومت کے خلاف سیاسی تحریکیں زوروں پر تھیں ۔سیاسی حالات بہت خراب ہوگئے تھے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور حکومت کے خلاف جلسے اور جلوسوں کا زور تھا۔مظاہرین میں خانہ جنگی کا ساعالم تھا۔ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر جنرل محمد ضیاء الحق نے چیف مارشل لا ء ایڈ منسٹر یٹر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈورسنبھالی جسکی وجہ سے ملکی استحکام پیداہوا۔معیشت میں ترقی ہوئی۔ صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خوراک کے معاملہ میں آگے چل کر ملک خود کفیل ہوگیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ایک موقع پر اُنہوںنے کہاتھا کہ اگر مسلح افواج تھوڑا عرصہ مزید اقتدار نہ سنبھال لیتی تو خانہ جنگی سے بھی زیادہ لوگوں کا بُرا حال ہوتا۔ اُن کے مطابق حکمرانوں کی زندگیاں پاکیزگی، طہارت اور خوفِ خدا سے لبریز ہونی چاہئیں تاکہ عوام ان سے گہرا ثر قبول کریں۔ وہ اسلام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بے حد خواہشمند تھے۔ مغربی ممالک اسلام میں ہاتھ کاٹنے کی سزائوں کو وحشیانہ اورپس ماندہ نظام کہتے تھے ۔ سعودی عرب کی مثال دے کر وہ کہاکرتے تھے کہ وہاں چوری کے اکا دُکا واقعات ہوتے ہیں اور دکانیں نماز کے وقت کھلی رہتی ہیں مگرچوری چکاری کا ڈر نہیں ہوتا۔ اُسکے برعکس امریکہ میں ایک دن بجلی بندہونے سے لاکھوں چوری کے واقعات ہوتے ہیں۔ 16ستمبر 1978ء کو محمد ضیاء الحق نے چھٹے صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھایا ۔ 8فروری 1979ء کو چاروں صوبوں میں شرعی بینچ قائم کئے اور 10فروری کو اسلامی قوانین کے نفاذ اور زکوٰۃ و عشر کا نظام قائم کرنے کا اعلان کیا۔ 26مئی 1979ء کووفاقی شرعی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیاگیا اور 25ستمبر 1979ء کو
پندرہ سال کے طویل عرصہ کے بعد بلدیاتی نظام بحال کرکے انتخابات کرائے گئے ۔ 20جون 1980ء کو زکوٰۃ وعشر کاآرڈر یننس نافذ کیاگیا اور یکم جنوری 1981ء کو بلا سود بنکاری کا نظام قائم کرکے کاونٹر کھولے گئے ۔ دوسرے بلدیاتی انتخابات ستمبر ۔اکتوبر 1983ء میں کرائے گئے۔ جبکہ تیسرے بلدیاتی انتخابات نومبر 1987ء میں مکمل کرائے گئے۔ 19ستمبر 1984ء میں اسلامی نظام کے بارے میں ریفرنڈم کرایا گیا اور اِس طرح مزید پانچ سال کیلئے جنرل ضیاء الحق کو بطور صدر پاکستان چُن لیاگیا۔ 25فروری 1985ء کو قومی اسمبلی کے اور 28فروری کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے۔ 20مارچ 1985ء میں 1973ء کے آئین میں ترمیم اور محمد خان جو نیجو کو وزیر اعظم منتخب کیاگیا۔ جنہوںنے 23مارچ 1985ء کو وزیراعظم کا حلف اُٹھایا۔ یکم جولائی کو سودی نظام ختم کردیاگیا۔ 8ستمبر 1985ء کو قومی اسمبلی میں آٹھویں آئینی ترامیم کا بِل پیش ہوا جسے 8اکتوبر کو قومی اسمبلی نے اور 31اکتوبر کو سینٹ نے منظور کرکے مارشل لاء کے تمام اقدامات کو آئینی شکل دے دی ۔30دسمبر 1985ء کو مارشل لا ء اُٹھالیا گیا۔ صدر محمد ضیاء الحق نے جنرل اسمبلی میںپہلی دفعہ تلاوت کراکے اسلامی اقدا ر کو اُجاگر کیا۔ اسلامی کانفرنس میں شرکت کی ۔ 27دسمبر کو سویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو اُنہوں نے ببرک کارمل کی حکومت کو باوجود دبائو کے ٹھکرا دیا۔ جار حانہ مداخلت کے خلاف احتجاج کرکے رائے عامہ ہموار کی ۔ اسلامی دُنیا کے ممالک سے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مہاجرین کی آمد سے نہ گھبرائے اور اس سلسلہ میں 23مارچ 1980ء کو تمام سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات کرکے اُن کی حمایت حاصل کی۔ حج کے معاملات میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ پنجاب اور شمالی علاقوں کے لوگ پہلے کراچی ائرپورٹ سے سفرِ حج شروع کیا کرتے تھے اُن کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے راولپنڈی کے قریب موضع سہام کے مالکان سے بذریعہ سی ڈی اے زمین حاصل کرکے 32ایکڑ کے وسیع رقبہ میں ایک عالیشان حاجی کیمپ صرف 8ماہ کی مدت میں تعمیر کرایا اور 1986ء سے کراچی کے علاوہ اسلام آباد سے بھی حج پروازوں کا اجراء ہوا۔ اسلام آباد کے حاجی کیمپ کا نام مدینتہ الحجاج اور کراچی کے حاجی کیمپ کانام بیت الحجاج رکھا۔ مدینتہ الحجاج میں ایک عالیشان مسجدکثیر سرمایہ سے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ نہ صرف پاکستانی حجاج بلکہ چینی حاجیوں کی خدمت کرکے بھی اُن کو خوشی حاصل ہوتی تھی جو پاکستان کے راستے حج بیت اللہ کو جاتے تھے۔ حاجیوں کی تربیت کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور سرکاری طورپر تربیت کاانتظام کراتے تھے۔ 29مئی 1988ء کو مسلم لیگ حکومت کو ختم کردیا گیا۔ اُن کو کئی بار محتاط رہنے کیلئے کہا گیا مگروہ صحیح العقیدہ مسلما ن تھے اور کہتے تھے کہ موت کا ایک دن متعین ہے اُن کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر زیادہ بھروسہ تھا۔جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کی تاریخ 16نومبر 1988ء مقرر کر دی تھی ۔ جنرل ضیاء الحق 11سال 43دن مکمل کرنے کے بعد 17اگست 1988ء کو ڈیوٹی کے دوران بہاولپور کے قریب طیارے حادثہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ پوری قوم کو سوگوار چھوڑگئے۔ اُن کو پورے اعزاز کے ساتھ شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیاگیا۔ اُن کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے مذہبی ،ملکی ،غیر ملکی مقتدرشخصیات کے علاوہ پوری قوم اسلام آباد کی طرف سیلاب کی طرح اُمڈ پڑی۔ ضیاء دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مضبوط ہوئی اسلامی اور مغربی ممالک کے قریب تررہی ۔افغان پالیسی کو اسلامی دُنیا میں بہت سراہاگیا۔ کشمیر کی تحریک آزادی کو زندہ کرکے اُس میں نئی روح پھونکی اور پڑوسی ملکوں میں آزادی کی مختلف تحریکوں کو بے حد تقویت ملی۔ جنرل ضیاء الحق کی برسی ہر سال 17اگست کو بڑی عقیدت سے منائی جاتی ہے ۔