’’ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر‘‘

Aug 17, 2022

جون ایلیا کا شعر ہے 
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
وفاقی حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی اور پاکستان میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بھی مسلسل کم ہونے کے بعد اوگرا کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی سمری کو یکسر مسترد کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں پونے سات روپے اضافہ کر دیا ہے اور حکومت کے اس ''ڈرون حملے {{‘‘کے بعد حکمران جماعت  (مسلم لیگ ن) کی اہم رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ  میں عوام کے ساتھ کھڑی ہوں اور اس فیصلے کی تائید نہیں کر سکتی۔ سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں مریم نواز نے مزید کہا کہ نواز شریف بھی نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا میں مزید ایک پیسے کا بوجھ عوام پر نہیں ڈال سکتا اور اگر حکومت کی کوئی مجبوری ہے تو میں اس فیصلے میں شامل نہیں ہوں اور میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے۔ وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جس میں وہ کہیں کہ مفتاح تو وزیراعظم کے سامنے بندوق تانے کھڑے تھے کہ پٹرول کی قیمت بیس روپے بڑھائیں لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ نہیں، کبھی نہیں، اگر انہوں نے پٹرول زیادہ مہنگا کر دیا تو انہیں پھر رات کو نیند نہیں آئے گی اس لئے انہوں نے صرف پونے سات روپے قیمت بڑھائی۔ دوسری جانب اتحادی جماعتوں کے وزرائ￿  کی جانب سے بھی ابھی تک ایسا کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا جس میں عوام پر پٹرول بم گرانے والی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی کا کوئی عنصر پایا جاتا ہو۔ لگتا ہے اتحادی وزراء بشمول مولانا فضل الرحمان کے جانشین مولانا اسعد محمود کے، تمام اتحادی ابھی تک قیام پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے خمار میں ہیں اور انہیں ابھی تک احساس ہی نہیں ہو سکا کہ مفتاح ان کے ساتھ ہاتھ تو چھوٹی چیز ہے، پورا بازو کر گیا ہے۔ درحقیقت پاکستان پر قابض یا مسلط (جو بھی سمجھیں) ''غلام اشرافیہ'' برصغیر پر راج کرنے والے برطانوی سامراج کی وہ پرچھائیں ہے جو اندھریے میں بھی ہمارا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں، اور ایسا وہ عوام کے دکھ درد بانٹنے کی غرض سے نہیں بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ کہیں ان کا معاشی نقصان نہ ہو جائے۔ غلامی کے خمیر میں گندھی ہوئی یہ اشرافیہ درحقیقت پاکستان کے عوام سے اپنے آبائواجداد کی غربت کا حساب لے رہی ہے۔ اگرچہ انگریزوں سے غلامی حاصل کئے ہوئے ہمیں 75 برس ہو چکے ہیں لیکن انگریز کے غلاموں سے نجات حاصل کرنے کے لئے ابھی ہماری آنے والی نسلوں کو کتنی جنگیں لڑنا پڑیں گی، اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستانی عوام کو ہر چند سال کے بعد ایک نئی فلم کا ٹریلر دکھا کر لوٹ لیا جاتا ہے، اس سے بھی افسوسناک صورتحال ہے کہ ٹریلر کے بعد جب اصل فلم شروع ہوتی ہے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ٹریلر تو ''ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز'' کی ملی بھگت تھی اور پھر وہی پرانی فلم دھرائی جاتی ہے جس میں ''علی بابا'' تو ہر بار مختلف ہوتا ہے مگر ''چالیس چور'' وہی ہوتے ہیں ۔ اگر اس سب میں نہیں تبدیل ہوئے تو وہ ہیں متوسط طبقے کے حالات۔ پاکستان کی موجودہ معاشی، معاشرتی اور اخلاقی صورتحال کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے کی جنگ ہار چکی ہیں، ادارے ہوں یا حکمران اتحاد، سیاسی و مذہبی جماعتیں ہوں یا غیر سرکاری تنظیمیں، عوامی شعور اور سماجی رویہ بہتر بنانے میں کسی کا کوئی عملی کردار ہے نہ سروکار، ملکی خزانے پر بہت بھاری بوجھ ڈالنے والی میٹنگز اور اجلاسوں میں بھی اس قدر چھوٹی اور عامیانہ باتیں کی جاتی ہیں کہ سننے والوں کو بھی اب شرمندگی ہونے لگی ہے لیکن اس قدر بیہودہ اور لغو باتیں کرنے والی  ذہنی طور پر غلام اشرافیہ اس معاملے میں اس قدر بے حس ہو چکی ہے یوں دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے بے شرمی کی ویکسین کے علاوہ چند بوسٹر ڈوز بھی لے رکھی ہیں اسی لئے انہیں خاک فرق نہیں پڑتا۔ اب تو وزیراعظم شہباز شریف بھی کہہ اٹھے ہیں کہ ''یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان کا سیاسی ماحول بری طرح سے منقسم ہو رہا ہے اور سیاسی جماعتیں ملک کو غربت سے نجات دلانے کی بجائے ایک دوسرے سے متصادم ہیں''۔ غیرملکی جریدے کو لکھے گئے ایک مضمون میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ''پاکستان 60 کی دہائی میں مثبت سمت میں گامزن تھا، 60کی دہائی میں پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کی تیاری کر رہا تھا''۔ پاکستان ایشیئن ٹائیگر بن ہی جاتا لیکن بدقسمتی سے پھر ہمارے یہاں ''جمہوریت'' آ جاتی ہے اور اس جمہوریت کی قیمت چکانے کے لئے عوام کو پر بار زندہ درگور ہونا پڑتا ہے۔ آمرانہ رویوں کی حامل تمام سیاسی جماعتیں اپنے لئے برے حالات کا علاج ''مزید جمہوریت'' میں تلاش کرتی ہیں  تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو جتنا ریلیف ڈکٹیٹروں نے دیا شاید سیاسی حکومتیں کبھی نہیں دے سکیں۔ آج کل  سیاسی حالات اور لندن کی سرگرمیوں کو سامنے رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نئے ''ٹریلر'' کی تیاریاں عروج پر ہیں اسی لئے عوام کو ذہنی طور پر اس قدر الجھایا جا رہا ہے تاکہ ٹریلر دیکھتے ہی عوام اپنی قوت فیصلہ سے کام لینے کی بجائے اسے پسند کرنے کو ترجیح دی جائے۔  تمام سیاسی جماعتوں اور ریاست کے اہم ستونوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کیونکہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کی برداشت اب زیادہ دیر تک ان کے اللے تللے اور اوٹ پٹانگ فیصلے من و عن تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں اور مزاحمت ہوئی تو کسی کی چونچ بچ پائے گی اور نہ  کسی کی دم…!

مزیدخبریں