نگران وزیراعظم کا تقرروفاق ہی نہیں صوبے کیلئے بھی امن کی نوید

فیصل ادریس بٹ
نگران وزیراعظم کے لئے انوار الحق کاکڑ کے انتخاب پر بلوچستان میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے نگراں وزیراعظم کا تعلق پٹھان قبیلے سے ہے۔نگران وزیراعظم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مسلم لیگ(نون) سے کیا تھا مگر الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکے اس کے بعد وہ ق لیگ کے جام کمال کے سیاسی رفیق بنے اور حکومت بلوچستان کے ترجمان بھی رہے۔ اس نئے منصب پر فائز ہونے سے پہلے وہ سینٹ کے رکن تھے  اور نشست سے اب وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔  ان کی بیورو کریسی اور انتظامی معاملات پرگہری نگاہ بھی ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیںکہ ان کے اپنے صوبے کے لوگوں کو ان سے کیا کیا توقعات ہیں۔ جن پر انہیں پورا اترنا پڑے گا۔  وہ بلوچستان کی خوشحالی کا باعث بنیں گے۔
وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے بلوچستان میں تباہ حال سڑکوں کے نظام کو بہتر بنانے کا جو فوری اعلان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کو درپیش مسائل سے آگاہ ہیں اور ان حل کے لئے کوشش بھی کریں گے۔ اگر وہ  بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اوربلوچ قوم پرست رہنمائوں کوہی اپنی حمایت کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کو ساتھ ملاکر چلتے ہیں تو نا صرف وفاقی سطح پر بلکہ بلوچستان میں بھی سیاسی حالات پرامن راہ پر چل سکتے ہیں۔ جس سے صوبے پراچھا اثر ہوگا۔
اس کے علاوہ انہیں صوبے میں بلوچ نوجوانوں کی پراسرار گمشدگی اور اغوا کے معاملات پر بھی غور کرنا ہوگا۔ ان واقعات کی روک تھام کرکے جذبات کو ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔ درجنوں گم شدہ نوجوانوں کے گھر والے سخت اذیت میں ہیں۔ اگر کوئی ملزم ہے تو اسے قانونی طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اس طرح تلخیوں میں بھی کمی آئے گی۔ ویسے بھی اگر روزگار کے کاروبار کے وسیع مواقع فراہم ہو تو گمراہ عناصر بھی واپس قومی دھارے میں لائے جا سکتے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ بلوچستان کی محرومیاں ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ انہیں بخوبی بلوچستان کے مسائل سے آگاہی ہے۔ویسے بھی برطانیہ سے تعلیم یافتہ  ہیں اور ان کا ویژن کافی وسیع ہے۔
 اب اگر پنجاب کی بات کریں تو نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی وہ تمام عوامی فلاحی منصوبہ جات کو ہنگامی بنیادوں پر تکمیل کروانا چاہتے ہیں جن کو منتخب وزراء اعلیٰ نے پس پشت ڈال رکھا تھا ان کے مختصر دور حکومت میں انہوں نے محکمہ پولیس، صحت، تعلیم، ڈویلپمنٹ اور کئی پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے پولیس ریفارمز کی گئی ہیں، محکمہ پولیس کی محرومیاں دور کی گئی ہیں عیدوں، محرم الحرام آزادی پاکستان ڈے پر موبائل سروس کی بندش کے بغیر انتہائی اعلیٰ حکمت عملی سے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنائی ہے ان کی اس کامیابی میں اگر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ان کی ٹیم کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی میں سید محسن نقوی کو دہائیوں سے جانتا ہوں جب وہ ایک بین الاقوامی ٹیلی ویژن کے بیورو چیف کے طور پر منظر عام پر آئے تھے سید محسن نقوی اور ان کی پولیس ٹیم میں شامل آئی جی پنجاب ڈاکر عثمان انور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ گزشتہ 25 سال سے دوستی کے رشتے سے منسلک ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ڈاکٹر عثمان انور بطور ایس پی پرموٹ ہوئے تھے اور ایس پی کینٹ لاہور میں تعینات تھے بلال صدیق کمیانہ بطور اے ایس پی لاہور میں آئے تھے ان تینوں کے درمیان تب سے انتہائی مثبت اور گہری دوستی چلی آ رہی ہے محسن نقوی کا مختصر دور حکومت کا بغور جائزہ لیا جائے تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور  نے محکمہ پولیس میں وہ  ریفارمز کرکے شہدا کے لئے  چھت فراہم کرکے شہدا کے بچوں کو نوکریاں دیکر سال ہا سال سے دل کھل کر ترقی نہ پانے والے سپاہی تھانیداروں جو کلرک بادشاہ کلچر کا شکار تھے کو ترقیاں دیکر پولیس کی محرومیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے ان گنت اقدامات کرکے محسن نقوی سے اپنی دوستی کا حق ادا کیا ہے جبکہ دوسرے دوست بلال صدیق کمیانہ نے صوبائی دارالحکومت میں پولیس کو عوام خدمت گار کے طور پر متعارف کروایا ہے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت  قبضہ گروپوں، منشیات فروشوں مافیاز کے خلاف بلاخوف و خطر کریک ڈائون جرائم پیشہ افراد 
کو پابند سلاسل کرنے کے لئے انتہائی اقدام کرنے اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی آئی جی اور گہرے دوست محسن نقوی کے دور حکومت کے وقار میں اضافہ کاباعث بنے ہیں۔ تیسرے دوست سید محسن نقوی نے بھی ان پر اعتماد کرکے دوست کی ایک اعلیٰ مثال رقم کی ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر عثمان انور جو ایف آئی اے میں بطور پنجاب کے ہیڈ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور وائٹ کالر کرائم منی لانڈرنگ کیسز تحقیقات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں کو بطور ڈی جی ایف آئی اے تعینات کئے جانے کا امکان ہے۔ آئندہ کچھ عرصہ تک ایف آئی اے کے اختیارات میں اضافہ بھی کیا جانا متوقع ہے ڈاکٹر عثمان انور کو سپیشل ٹاسک دیکر وہاں بھیجے جانے کا امکان ہے ان کی جگہ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کو آئی جی پنجاب  لگائے جانے کا امکان ہے۔ بلال صدیق کمیانہ کو اگر آئی جی پنجاب تعینات کر دیا گیا تو وہ صوبائی دارلحکومت میں جس طرح پولیس رٹ قائم کرکے جرائم پیشہ افراد کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوتے ہیں پنجاب میں بھی اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پنجاب کو امن کا گہوارہ بنانے میں کردار ادا کریں گے۔
 بلا ل صدیق کمیانہ نے صوبائی دارالحکومت سے ہی اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اس تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے محنتی تجربہ کار افسران کی تعیناتیاں یقینی بنائی، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز بھی ان کے شانہ یشانہ محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں تینوں دوستوں کی کامیابی کی وجہ ان کی ہارڈ ورکنگ ہے دن میں16 سے 18 گھنٹے یہ تینوں کام کرتے ہیں اس وجہ سے دوستی کے علاوہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ بہت مستحکم ہے۔

ای پیپر دی نیشن